0

ففتھ جنریشن وار۔اور مسئلہ فسلطین

تحریر: فرقان احمد سائر۔

کیا محاظ جنگ سوشل میڈیا میں لڑی جائے گی۔ اس تناظر میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی مختلف رائے ہے۔ تاہم اس بات یہ ہر کوئی متفق ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال نا گزیر بن چکا ہے۔ چھوٹی بڑی ریاستوں کو سب کو میدان جنگ کے بجائے سوشل میڈیا کا ہتھیار سب سے زیادہ مظبوط دکھائی دیتا ہے۔ چاہے وہ اسے پروپیگنڈے کے لئے استعمال کریں یا اپنے خصوصی اہداف کو پورا کرنے کے لئے الغرض سوشل میڈیا کا استعمال ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کے لئے ناگزیر بن چکا ہے۔
حالیہ تناظر جس میں۔ مسئلہ فلسطین اور اسرائیل پر پوری دنیا کی نظر ہے۔ گزشتہ دھائیوں سے اقوام عالم کی نظر سے اوجھل ہوچکا تھا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چونکہ امت مسلمہ اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان فلسطین میں بسنے والے مسلمانوں اور ان پر اسرائیلی فوج کی بربریت کی کوئی مذمت نہیں کی جا رہی بلکہ اسرائیل کے مابین اچھے تعلقات اور مراسم بڑھائے جا رہے تھے جس کے باعث فلسطینی جنگجو کی جانب سے اسرائیل کو سرپرائز اٹیک کا سامنا کرنا پڑا یہ حملہ اس قدر اچانک اور شدت سے کیا گیا کہ پوری دنیا میں طاقت کی دھاک بٹھانے والا ملک گھٹنوں کے بل آگیا۔ محدود اندازے کے مطابق فلسطینی جنگجووّ کی جانب سے کم و بیش 5000 سے زائد راکٹ داغے گئے جس کا مقابلہ اسرائیل میں نصب آئرن ڈوم میزائل نا کر سکا۔ فلسطینی مجاہدوں کی جانب سے داغے گئے سینکڑوں میزائل نے اپنے اہداف کو نشانہ بنایا جس سے نام نہاد اسرائیل کے طاقت کی قلعی کھل کر رہ گئی۔ اس تمام واقعہ کو فلسطینی مجاہدین کی جانب سے باقاعدہ سوشل میڈیا پر اپلوڈ کیا گیا پلک جھپکتے ہزاروں تصاویر اور وڈیوز دنیا بھر میں وائرل ہوگئیں۔ جیسا کہ اول زکر کیا جا چکا ہے کہ چھوٹی بڑی ریاستوں کو سب کو میدان جنگ کے بجائے سوشل میڈیا کا ہتھیار سب سے زیادہ مظبوط دکھائی دیتا ہے لہذا فلسطینی مجاہدین کی جانب سے یہ فلسطین کے بے بس عوام جوکہ اسرائیل کے ظلم و ستم برداشت کر رہی تھی کی جانب مرکوز کرایا گیا۔ دوسری جانب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کرہ عرض میں بسنے والے ممالک خصوصآ عرب ممالک کا جھکاوّ اسرائیل کی جانب زیادہ ہوگیا تھا اور اس سے اپنے تعلقات استوار کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے جس کو ایک جھٹکا یا کچھ عرصے کے لئے موخر کرنا تھا۔ تاہم وجوہات کوئی بھی ہوں ایک بات طے ہے کہ اسرائیل دنیا میں ایسا خطرناک ملک ہے جس کی نظر میں تمام مسلمان ممالک کانٹے کی طرح چھبتے ہیں۔ جنہیں اندرونی اور بیرونی خانہ جنگی کے زریعے ختم کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے جس قدر بربریت اور سفاکیت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ اقوام عالم سوشل میڈیا کی زریعے اس کی کھل کر مذمت کر رہی ہے اور ان کی تمام تر ہمدردیاں فلسطین میں بسنے والے عوام کے ساتھ ہے۔ غزہ میں بسنے والے لاکھوں مسلمانوں کو اودیات ، پانی اور خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اس معرکے میں نتیجہ کچھ بھی نکلے تاہم یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ دنیا بھر میں بسنے والی عوام کی تمام تر ہمدریاں فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں