ادارہ سی آئی ڈی نیوز میں ضلع شرقی میں تعینات ڈاکٹر فائزہ کا تفصیلی انٹرویوں لیا جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔
سی آئی ڈی نیوز: آپ کا پورا نام کیا ہے۔
ج: میرا پورا نام ڈآکٹر فائزہ سودھر ہے۔
سی آئی ڈی نیوز: آپ کی تعلیم کیا ہے۔
ج: میں نے ایم بی بی ایس کیا ہے۔
سی آئی ڈی نیوز: کہاں سے اور کب۔
ج: میں نے اپنا ایم بی بی ایس چاندکہ میڈیکل کالج لاڑکانہ سے 2019 میں پاس آوّٹ کیا ہے۔
سی آئی ڈی نیوز: پولیس فورس میں کب شمولیت کی۔
ج: پولیس فورس 2022 میں بطور ڈپٹی سپرینڈیٹ آفس پولیس جوائن کی۔
سی آئی ڈی نیوز: پولیس فورس کا حصہ بننے کے لئے کون سا کورس کیا ہے۔
ج: یہ پی سی ایس جسے Combined Competitive Exam (مشترکہ مسابقتی امتحان) کہتے ہیں۔ جسے سندھ پاکستان کمیشن اسے دیکھتی ہے۔
سی آئی ڈی نیوز: یہ آپ کی پہلی پوسٹنگ ہے۔؟
ج: جی ڈسٹرکٹ ایسٹ میں بطور ڈی ایس پی انڈر ٹرینی ٹرینی پہلی پوسٹنگ ہے۔
سی آئی ڈی نیوز: اس سے پہلے کہاں رہی
ج: اس سے قبل نیشنل پولیس اکیڈمی اسلام آباد میں تھی۔
سی آئی ڈی نیوز: کتنے عرصے کی ٹریننگ تھی ؟
ج: تقریبآ چھ ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اس کے بعد چھ ماۃ کا عرصہ یہاں گزارنا ہے
جب ایک سال کی ٹریننگ مکمل ہوگی تو اس کے بعد باقاعدہ پوسٹنگ ہوگی۔
سی آئی ڈی نیوز: یہاں کتنا عرصہ ہوچکا ہے۔
ج: تقربیآ دو ماہ گزر چکے ہیں۔
سی آئی ڈی نیوز: تو یہاں آپ نے کس کام کو سیکھنے میں خاص توجہ دی۔
ج: بطور انٹرٹرینی میں یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہر کام میں خاص توجہ دی جائے تاکہ جب ہم پریکٹیکل لائف میں آئیں تو کسی قسم کی دقت کا سامنا نا ہو۔
سی آئی ڈی نیوز: آفس سے نکل بھی کبھِی کام کرنا پڑا ؟
ج: جی بالکل گراونڈ میں اتر کر کام کرنے زیادہ اچھا لگتا ہے کیونکہ اس کے پریٹیکلی طور پر کام کو بہت اچھے طریقے سے سیکھا جا سکتا ہے۔ میں اسنیپ چیکنگ پیٹرولنگ میں بھی جاتی ہوں۔ سیکیورٹی کے معاملات بھِی دیکھنے پڑتے ہیں۔ جبکہ خواتین کے جو مسائل ہوتے ہیں ان کو حل کرنے میں ہر ممکن مدد کرتی ہوں۔
سی آئی ڈی نیوز: آپ کے پاس زیادہ تر جو کیسز آتے ہیں وہ کس نوعیت کے ہوتے ہیں۔
ج: چونکہ بطور ٹرینی میں مختلف تھانوں میں جاتی ہوں۔ ایس ایس پی آفس میں بھی بیٹھتی ہوں تو مختلف نوعیت کی شکایات آتی ہیں میں زیادہ تر گھریلوں جھگڑے اور خواتین کے ساتھ ہراسمنٹ کے واقعات ہوتے ہیں ۔
سی آئی ڈی نیوز: تھانوں میں کس نوعیت کے معاملات کو دیکھتی ہیں۔
ج: میرے پاس تقریبآ 19 تھانے ہیں اور تقربیآ ہر تھانوں میں جا کر وہاں کے معاملات دیکھنے اور سیکھنے پڑتے ہیں وہاں پر زیادہ تر خواتین کے ایشوز پر فوکس رکھتی ہوں جس کیس میں اگر مقدمہ درج کرنے کی ضرورت پڑے تو وہ بھی کرتے ہیں۔
سی آئی ڈی نیوز: پولیوں کے حوالے سے کچھ کہنا چاہیں گی۔
ج: دنیا میں دو ہی ایسے ممالک ہیں جہاں بچے پولیو کا شکار ہوتے ہیں۔ بدقسمتی ہے پاکستان بھی اس ملک میں شامل ہے۔ اور بحیثیت ایک ڈاکٹر بھی میں والدین سے درخواست کرونگی کہ پولیوں ٹیم کے ساتھ تعاون کریں اپنے بچوں کو موزی امراض سے بچانے کے لئے پولیوں کے قطرے ضرور پلائیں۔
سی آئی ڈی نیوز: گٹکا ماوا کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔
ج: جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کراچی میں گٹکا ماوا کی فروخت ایک حقیقت ہے۔ پولیس اپنے طور پر اسے ختم کرنے کی ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ جہاں کہیں بھی انفارمیشن ملتی ہے وہاں پر کریک ڈآوّن کیا جاتا ہے۔ تاکہ اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ زاتی طور بھی میں اس کریک ڈآون میں شامل ہوتی رہتی ہیں۔
سی آئی ڈی نیوز: آپ کے خیال میں جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیچھے کیا عوامل رونما ہیں۔
ج: مجرم دو طرح ہوتے ہیں ایک تو وہ جو کہ عادی مجرم ہوتے ہیں اور ان کا زہن ہی چوری ڈکیتی اور دیگر سنگین جرائم کی طرف رہتا ہے۔ یہ افراد جیل جا کراپنا اور گینگ بنا لیتے ہیں اور باہر آکر دوبارہ اسی دنیا کی طرف چلتے ہیں۔ جبکہ دوسری وجہ مہنگائی اور بیروزگاری ہے۔ حالات کے باعث انسان جرم کرتا ہے۔ تاہم ہمارے سینئرز کی جانب سے سخت احکامات ہیں کہ پیٹرولنگ بڑھائی جائے جن کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔
حساس علاقوں میں اسنیپ چیکنگ اور پیٹرولنگ بڑھا دی گئی ہے۔
سی آئی ڈی نیوز: آپ ایک ایم بی بی ایس ڈآکٹر ہیں لیکن پولیس میں آنے کی وجہ۔
ج: اگرچہ ڈاکٹریٹ بھی ایک بہترین شعبہ ہے مگر پولیس میں آنے کا میرا مقصد یہ تھا کہ
اپنے اختیارات اور وسائل کو بروے کار لا کر عوامی خدمات بہت اچھے سے کی جا سکتی ہے
عوامی مسئلے مسائل کو حل کرنے میں بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ میرے خیال میں خواتین کو زیادہ سے اس فیلڈ میں آنا چاہئے۔
سی آئی ڈی نیوز: آپ کی فیملی سے بھِی کوئی اس پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ہے۔
ج: نہیں فی الحال تو پوری فیملی سے میں ہی اس فیلڈ میں آئی ہوں مگر مجھے دیکھ کر میرے باقی فیملی ممبرز کو بھِی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
