0

شہر قائد و اسٹریٹ کرائم اور مہنگائی

تحریر: فرقان احمد سائر۔

ملکی صورتحال اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہی ہے جہاں مہنگائی اور بیروزگاری نے طوفان کھڑا کر رکھا ہے رہی سہی کثر اسٹریٹ کرمنلز نے پوری کردی۔
درجنوں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی کے باوجود شہر بھر سے کئی گاڑیاں موٹرسائیکلیں اور موبائل فون چھین لئے جاتے ہیں۔ جس کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بتدریج اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے آٹے میں نمک کے برابر کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے میں اپنی مثال آپ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے محضکہ خیز بیانات بھی عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے بجائے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں اسی باعث شہریوں میں غم و غصہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اسٹریٹ کرمنلز کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کے بجائے پکڑے جانے والے لٹیروں کا فیصلہ اسی سڑک یا گلی میں کر کے اپنا غصہ ٹھنڈا کرتے ہیں۔ پاکستان کے معاشی حب کا کردار ادا کرنے والے شہر میں روزانہ کی بنیاد درجنوں وارداتیں ہو جاتیں ہیں۔ جن میں مزاہمت کے دوران کئی افراد کو قتل کر کے زندگی کا چراغ بجھا دیا جاتا ہے۔ کئی واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج اور ملزمان کے چہرے واضع ہونے کے باجود ملزمان درجنوں وارداتوں میں ملوث ہونے کے باوجود پکڑنے نا جانا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکرگی پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیتا ہے۔ پولیس افسران اس حوالے سے یہ بیان دے کر اپنا ہاتھ جھاڑ لیتے ہیں کہ اسٹریٹ کرمنلز واردات کے فورآ بعد کچی آبادیوں اور گوٹھوں میں چھپ جاتے ہیں جہاں کی تنگ گلیاں اور ان کے کمیونیٹی سسٹم کے باعث پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والوں اداروں کا اندر داخل ہونا ممکن نہیں ہوتا یا یہ کرمنلز نیشنل ہائی وے اور سپر ہائی وے پر مختلف طریقے استعمال کر کے شہر مِیں داخل ہوتے ہیں اور واردات کے بعد دوبارا شہر سے فرار ہوجاتے ہیں۔ جس کے باعث ان کی شناخت ممکن نہیں رہتی۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کسمپرسی کی حالت میں سفید پوش طبقہ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ معاشی حالات اور تنگدستی کے باعث گھریلوں خواتین ذریعہ معاش کے لئے نوکری کی تلاش میں گارمنٹس فیکٹریوں اور دیگر جگہوں پر نوکری کرنے پر مجبور ہیں۔
جہاں جنسی ہراسمنٹ کا شکار کیا جاتا ہے۔ ملک میں روپے کی قدر میں گرنے کے باعث مہنگائی میں جس قدر اضافہ دیکھنے کو ملا ہے بالعموم طور مڈل کلاس کی خواتین اور لڑکیاں جنسی ہراسمنٹ کا شکار ہوتیں ہیں تاہم اپنی نوکری اور گھریلوں تنگدستی کو مدنظر رکھتے ہوئے چار و نا چار ان درندوں کے ہاتھوں اپنی عصمت کا سودا کرنے پر مجبور ہیں۔
ملک میں ایسے کئی واقعات بھی منظر عام پر آئے جہاں پر تعلیمی درسگاہوں جیسی مقدس جگہ پر طالبات کو پاس کرنے یا ذائد نمبرز دینے کے لئے اپنے ناپاک خواہشات کی تکمیل کی گئی۔ گزشتہ دنوں کراچی گلشن حدید کے ایک نجی اسکول میں ہونے والا واقعہ بھی پورے ملک میں آگ کی طرح پھیل گیا جہاں اسکول کے مالک کے مبینہ طور پر خاتون استاتذہ اور اسکول کی طالبات کے ساتھ فحش حرکات کرنے والی وڈیوز سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے سامنے آئیں۔ اگر اس طرح کے واقعات کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس طرح کے واقعات زیادہ تر گارمنٹس فیکٹریوں اور سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں زیادہ ہوتا ہے جہاں کم عمر لڑکیوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔۔
چونکہ وطن عزیز میں خاندانی نظام ، کورٹ کچریوں کا طویل چکر اور بدنامی کے خوف سے خواتین سامنے نہیں آتی جس کے باعث ملزم کو سہولت مل جاتی ہے اور باآسانی رہا ہو کر اپنے مذموم مقاصد کو دوبارا پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی چوری ڈکیتی کے واقعات اور خواتین کے ساتھ جنسی استحصال کو اگر ایک نظریہ سے دیکھا جائے تو سب سے بڑی وجہ مہنگائی۔ بیروزگاری اور نا انصافی کہی جا سکتی ہے۔ اگر اسے بروقت کنٹرول نا کیا گیا اور مستقل بنیادوں پر مثبت حکمت عملی نہیں اپنائی گئی تو مستقبل بعید میں اس کے نتائج مذید خطرناک ہوسکتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں