0

آنکھ مچولی

روبیہ مریم روبی
آنکھ مچولی

آج کل چور ڈاکو، پولیس اور عوام کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے میں اکثر ہی مشغول نظر آتے ہیں۔چاہے یہ آنکھ مچولی گاؤں کی سطح کی ہو۔قصبے کی سطح کی ہو یا ملکی سطح کی۔چور اُچکے اکثر و بیشتر کامیاب و کامران نظر آتے ہیں۔ویسے تو ملکی سطح کی چوریاں کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں ہیں۔بجلی چوری،گیس چوری،آئیڈیاز کی چوری اور یوں یہ فہرست ہزاروں عنوانات تک پہنچتی ہے۔پاکستان میں خصوصاً پنجاب اور اس کے گِرد و نواح میں پولیس مقابلہ ہوتا ہی رہتا ہے۔کبھی کوئی ڈاکو مر جاتا ہے اور کبھی کوئی پولیس اہلکار شہید ہو جاتا ہے۔بس کسی نہ کسی طرح سے یہ آنکھ مچولی جاری و ساری رہتی ہے۔اب کشمیر میں بھی اس کا آغاز ہو چکا ہے۔کشمیر کے بیشتر علاقے جو اب تک محفوظ خیال کیے جاتے تھے۔اب غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ضلع بھمبر کو ہی لے لیجیے۔پانچ دس سال پیچھے دیکھا جائے تو کشمیر امن و سکون کا گہوارہ تھا۔مگر اب وہ بات نہیں رہی۔کچھ روز قبل کی بات ہے۔کچھ خواتین بینک سے پیسے نکلوا کر لا رہی تھی۔چند چور اُچکے ان کی تاڑ میں تھے۔جو کافی دیر تک ان کی گاڑی کا پیچھا کرتے رہے۔بالآخر آبادی سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر اُنھوں نے خواتین کی گاڑی پر حملہ کر دیا۔ایک خاتون سے سات سو روپیہ ہتھیایا اور اس کی بالیاں اُتروا لیں۔اور دوسری خاتون اب بھی بالیاں اتار ہی رہی تھی۔مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کسی آہٹ سے وہ چور بھاگ گئے۔اور خواتین کی بھاری بھرکم نقدی بچ گئی۔جب کہ ڈرائیور کا فون اور اس کی پورے دن کی کمائی چور ہڑپ گئے۔چوری کے تقریبا بیس منٹ بعد پولیس وہاں آ پہنچی۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اب بھی تین دن گزرنے کے بعد بھی وہ چور پکڑے نہیں جا سکے۔اسی جگہ پر چھ سات ماہ قبل کی بات ہے کہ ایک آدمی کو سرِ شام لوٹ لیا گیا۔اگر تب ہی کوئی اُصول یا قانون بنا دیا جاتا تو اب ان چوروں کی اتنی ہمت نہ بڑھتی کہ وہ دن کے ایک بجے خواتین کو لوٹنے کی کوشش کرتے۔اسی آبادی سے تقریباً سات کلو میٹر دور ایک گاؤں میں رات کو پانچ گھروں کو لوٹ لیا گیا۔بے شمار نقدی کے علاوہ دس بارہ تولے سونا بھی لوٹا گیا۔چوروں ڈاکوؤں نے چلتے ہوئے پنکھوں کے نیچے بے ہوشی کی سپرے کی۔جس کی وجہ سے سارے گھر والے لوگ سوئے رہے۔حکومت کو چاہیے کہ ایسی سپرے کو بین کرے۔جس کی مدد سے چور ڈاکو رات کو کامیابی سے واردات کر سکتے ہیں۔حکومت کو ایسی ہر سپرے اور دوائیاں بین کرنی چاہییں۔جن کی وجہ سے چوروں کا ہیاؤ کُھلتا ہی جاتا ہے۔اور اگر کوئی غیر قانونی طور پر ایسی سپرے یا دوائیاں فروخت کرتا ہوا نظر آ جائے تو اس کو بھاری جرمانہ کرنے کے ساتھ ساتھ جیل کی ہوا بھی کھلائی جائے۔تا کہ ملک میں امن و امان قائم کیا جا سکے۔خاص طور پر جو لوگ نشہ آور ادویات؛بناتے،خریدتے اور فروخت کرتے ہیں! ان پر حکومت کو کنٹرول کرنا چاہیے۔تب ہی ریاست میں امن و امان قائم کیا جا سکتا ہے۔ورنہ!
کوئی اُمید بَر نہیں آتی!
حکومت کو چاہیے کہ بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کرے۔دورِ حاضر میں تقریبا ہر شخص کے پاس موبائل موجود ہے۔لوگوں کو خود بھی چاہیے کہ انٹرنیٹ کی مدد سے نئی نئی اسکلز سیکھیں۔

یہ بھی پڑھیں: عدم برداشت کا کھیل۔

آج کل لوگ انٹرنیٹ کی مدد سے لاکھوں کما رہے ہیں۔چور ڈاکو بھی انٹرنیٹ کی مدد سے لاکھوں کما سکتے ہیں اور چوری چکاری اور حرام سے بچ سکتے ہیں۔جو لوگ لاکھوں کما رہے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ جہاں تک ممکن ہو؛ لوگوں کو انٹرنیٹ سے پیسہ کمانا سکھائیں۔اگر ممکن ہو تو مفت لوگوں کو سکھا کر روزگار فراہم کرنے کی کوشش کریں۔یوں شاید سو میں سے پانچ افراد غلط راستے پر چلنے سے بچ سکیں۔حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے لوگوں کو انٹرنیٹ سے پیسہ کمانے سے متعلق آگاہی دیں۔کچھ لوگ لوگوں کو یہ اسکلز تو دے رہے ہوتے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس وجہ سے بھی بہت سے لوگ اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔کوشش کریں دوسروں کے لیے آسانیاں بانٹیں۔اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں