بلیری کے سات دن!
👈چند روز قبل مورخہ 11/08/23 رات 2بج کر 30 منٹ پر دوستوں کے ساتھ ہوٹل کے باہر بیٹھا تھا کے سات پولیس کی موبائلوں نے مجھے گھیر لیا
👈ایک پولیس موبائل پر ایس ایچ او قائد آباد لکھا ہوا تھا باقی موبائلوں پر کچھ نہیں لکھا تھا
👈ظاہری طور پر کسی موبائل کی شناخت کرنا ناممکن تھی
👈ایک شخص جوپینٹ شرٹ میں ملبوس تھا میرے پاس آیا اور کہا کے آپ کون ہیں
👈میں نے جواب دیا کے میں صحافی ہوں تو آنے والے شخص نے برجستہ جملہ کہا “صحافی تو ہوتے ہی بلیک میلر ہیں” اس کے ساتھ ہی مجھے حکم دیا گیا کے آپ ہماری ایپ “تلاش” پر اپنا انگوٹھا رکھیں دیکھتے ہیں کے آپ کا ہمارے پاس کیا ریکارڈ نکلتا ہے
👈میں نے ایسا ہی کیا اور میرے سابقہ دو مقدمات جن میں معزز عدالتوں نے باعزت بری کردیا تھا وہ نکل آے
👈بس جی پھر کیا تھا ہٹو بچو کی صدائیں بلند ہوتی رہیں جیسے کے میں نو مئی کے واقعہ میں ملوث تھا
👈یا میں نے کئی قتل کئے ہوں یا کسی کالعدم تنظیم سے تعلق نکل آیا ہو
👈پھر مجھے کہا گیا کے آپ کا شناختی کارڈ کہاں ہے میں نے کہا میری گاڑی میں موجود پرس میں رکھا ہے
👈نام نہاد پولیس افسر جس کا نام بعد میں امداد خواجہ معلوم ہوا موصوف نے میری تلاشی لی اور مجھے کہا کے شناختی کارڈ لیکر آجاو
👈میں گھر کی طرف روانہ ہوا جو چند قدم کے فاصلے پر تھا تو دو سول ڈریس پینٹ شرٹ میں ملبوس افراد اسلحہ سے لیس میرے ساتھ ہو لئے
👈گھر گیا گاڑی کی چابی لی اور گاڑی سے انھیں شناختی کارڈ نکال کردینے کے بعد گاڑی لاک کرکے چابی جیب میں ڈال کر مذکورہ افسر کے پاس چلا گیا
👈ایس ایچ او سی ٹی ڈی سول لائن امداد خواجہ نے مجھ سے میرا شناختی کارڈ لیکر مجھے پولیس موبائل میں بیٹھنے کا کہا اور میں بیٹھ گیا لیکن اس وقت جب میں نے ان سے کہا کے جرم کیا ہے ؟ تو موصوف فرمانے لگے آپ پر پہلے کے دو مقدمات ہیں
👈سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے پاکستان کے ایک شہری جس نے دونوں مقدمات کا بخوبی سامنا کیا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جھوٹے درج کئے گئے مقدمات کو شکست دیکر عدالتوں سے باعزت بری ہوکر اپنی روزانہ کہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوے تھا جواز بنادیا گیا
👈اس ملک کا المیہ یہی ہے چور اور جرائم پیشہ آزاد اور عام شریف شہری قید ہوجاتے ہیں
👈بحرحال موصوف ایس ایچ او نے میری گاڑی کی چابی مجھ سے لیکر ایک اور شخص کے حوالے کی اور کہا اس کی گاڑی لیکر آو پھر مجھے مخاطب کرکے کہا کے تمہاری گاڑی سے بیس کلو چرس نکالوں گا
👈سی ٹی ڈی کس مقصد کے لئے بنائی گئی سی ٹی ڈی میں التوا کئی مقدمات منہ چڑھا رہے ہیں لیکن نہیں ان پر کام نہیں کیا جارہا بلکہ سی ٹی ڈی نے کمائی کرنے کے نئے نئے دھندے بنارکھے ہیں
👈اگر بالا افسران سی ٹی ڈی کے افسران سے لیکر عام اہلکار کے نوکری کی تاریخ سے لیکر آج تک کے اثاثے چیک کرینگے تو معلوم ہوگا کے ایک ایک آفیسر اور اہلکار نے تنخواہوں کی مد میں کتنی جائدادیں بنائی
👈عام تنخواہ میں تو گزارہ ممکن نہیں ان کے ٹھاٹ بھاٹ سے ایسا لگ رہا ہوتا ہے کے کروڑوں کے اثاثے بنا رکھے ہیں
👈بات کررہا تھا کے پھر میری گاڑی لائی گئی اور اس کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تلاشی کے بعد ایک اہلکار نے گاڑی کی ڈراِیونگ سیٹ سنبھال لی
👈موصوف ایس ایچ او کو خیال آیا . . . . . . اور میرے پاس آکر پوچھا کے آپ کے پاس پستول بھی ہے وہ کہاں ہے؟
👈میں نے کہا کیوں؟ پھر کہا کے لائسینس ملا آپ کی گاڑی سے
👈میں نے کہا کے جب لائسینس مل گیا تو پستول کی کیا ضرورت ہے پستول بلاوجہ میں ساتھ نہیں رکھتا تو مجھے کہا کے پستول لانا پڑے گا چیک کرنا پڑے گا
👈پھر مجھے بتاے بغیر دو لیڈی کانسٹیبلز کے ہمراہ میرے گھر پر چڑھائی کردی اور دروازہ ایسے پیٹا گیا جیسے اندر “را” کے ایجنٹ موجود ہیں بھاگ نا جائیں
👈دروازہ کھولا گیا تو اہلکاروں نے گھر کی ویڈیو بنانا شروع کردی! اور نقاب پوش شخص نے اسلحہ ایسے تان رکھا تھا جیسے پاکستان دشمنوں کے گھر میں داخل ہوگئے ہوں
👈میں پوچھنا چاہتا ہوں کیوں ؟ کیوں؟
👈کیا صحافی ہونا جرم ہے کیا صحافت جیسے مقدس پیشے کو اپنانا جرم ہے
👈بحرحال ہر اس اقدام کا جواب تو دینا پڑے گا جو ناروا سلوک میرے ساتھ میری فیملی کے ساتھ روا رکھا گیا. . . . وہ سب بعد میں ان شاء اللہ
👈پستول برآمد کیا گیا اور ایسا لگنے لگا کے سی ٹی ڈی نے فتح کے جھنڈے گاڑھ دئے ہوں
👈پھر میری آنکھوں پر سیاہ رنگ کی پٹی باندھ کر اوپر چادر اوڑھا دی گئی اور دوسرے علاقے کے لئے روانہ ہوگئے. . . . . . . . جاری ہے!
……
بلیری کے سات دن
گزشتہ سے پیوستہ
قسط نمبر 2
👈پھر میری آنکھوں پر سیاہ رنگ کی پٹی باندھ کر اوپر چادر اوڑھا دی گئی اور دوسرے علاقے کے لئے روانہ ہوگئے
👈واضع ہو کے اس میں کچھ معاملات ایسے ہوے ہیں جن کا ذکر مناسب نہیں ان کا معاملہ قانونی طریقے سے نبٹایا جاے گا
👈نیو مظفر آباد ریڑھی روڈ گھوماتے رہے مزید چار افراد کو بھی اٹھایا انھیں بھی موبائل میں ببٹھا کر روانہ ہوگئے
👈چلتے چلتے تھانہ قائد آباد کے آگے موبائلیں رک گئی تقریبا آدھا گھنٹہ رکنے کے بعد چل پڑیں
👈تقریبا 35/40 منٹ کے بعد ایک جگہ پہنچی میرے دماغ میں آیا شاید گارڈن ہے یا سول لائن ہیڈ کوارٹرز
👈مجھے پکڑ کر اتارا گیا اور آرام آرام سے سیڑھیاں چڑھائی گئی پھر نیچے بیسمنٹ میں ایک کمرے میں زمین پر بٹھا دیا
👈دکھ اس بات کا نہیں کے مجھے زمین پر بٹھایا گیا دکھ اس بات کا تھا کے اس ملک میں قانون نام کی کوئی شے سرے سے موجود ہی نہیں جس مقصد کے لئے سی ٹی ڈی کو بنایا گیا وہ مقصد اب زاتی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوے پورا کیا جارہا تھا
👈زمین پر بٹھانے کے بعد بدستور میری آنکھوں سی پٹی نہیں ہٹائی گئی اور آدھا گھنٹہ یونہی بٹھاے رکھا
👈انسان بھی عجب شے ہے مکمل آسائشوں کے ساتھ جینا چاہتا ہے حالانکہ پریشانیاں عصائب سب اللہ کی طرف سے ہوتی ہیں
👈مجھ پر اچانک آنے والے معاملہ پر بھی میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں ہوسکتا ہے میرے لئے اللہ نے بہتری کا ساماں پیدا کررکھا ہو
👈کچھ دیر کے بعد ایک شخص آیا اور مجھ سے سوالات کرنے لگا سوال بھی ایسے بے تکے انداز میں پوچھ رہا تھا جیسے کے میں ٹارگٹ کلر ہوں یا میرا جرائم پیشہ گروہ سے تعلق ہو
👈سوال جواب کا سلسلہ بیس منٹ چلتا رہا اہم بات جو موصوف نے مجھ سے کی کے آپ پولیس کے خلاف بہت لکھتے ہو علاقے میں آپ کا کردار اچھا نہیں اور ہم نے جس جس بندے سے پوچھا وہ آپ کو برے الفاظ سے یاد کررہا تھا
👈میری ہنسی چھوٹ گئی اور میں نے کہا کیا میری آنکھوں سے پٹی ہٹائی جاے گی یا آپ کی مذکورہ باتوں کا جواب پٹی باندھے ہی دیدوں
👈مجھ سے مخاطب ہوا کے تم سی ٹی ڈی کی حراست میں ہو یہاں تمہاری مرضی سے کچھ نہیں ہوگا ہماری مرضی سے سب چلے گا
👈میں نے کہا ٹھیک ہے پٹی بندھی رہنے دو اگر دوبارہ پٹی ہٹانے کا کہوں گا تو شاید سی ٹی ڈی والے مجھے بڑے مقدمہ میں فٹ نا کردیں پھر میں نے آخر تک پٹی ہٹانے کی بات نہیں کی کیونکہ میں ان کے ہاتھ آ گیا تھا کچھ بھی کرسکتے تھے
👈مجھ سے کہا کے تمہیں ہنسی کس بات پہ آئی تو میں نے کہا آپ کی پہلی بات کا جواب یہ ہے کے میں نے عرصہ تین سالوں سے پولیس کے خلاف لکھنا چھوڑ دیا تھا دوسری بات آپ کو کیا معلوم کے میرے علاقے میں میرا کردار کیسا ہے اور آپ کو رات تین بجے ایسا کون سا شخص ملا جو میرے بارے میں اچھی راے نہیں رکھتا ہے
👈پھر کہا ہم سب جانتے ہیں میں نے کہا اگر سب جانتے ہو تو ملزمان جن پر کئی کئی مقدمات درج ہیں مفروری کی زندگی گزار رہے ہیں انھیں کیوں گرفتار نہیں کیا جارہا؟
👈آہستہ آہستہ ماحول چینج ہوتا رہا
👈میں نے سامنے بیٹھے شخص سے واش روم جانے کی خواہش کی تو ایک شخص مجھے واش روم لے گیا اور بدستور آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی اسی حالت میں واپس اسی کمرے میں لایا گیا
👈پھر جانباز سپاہی نے مجھے کہا کے آپ پر مقدمہ درج کیا جارہا ہے ! میں نے استفسار کیا کے کس حوالے سے مقدمہ بنایا جارہا ہے تو ظل سبحانی نے فرمایا آپ کے پستول کا مقدمہ آپ پر درج کیا جارہا ہے
👈میں نے عزت ماب سی ٹی ڈی کے اہلکار سے کہا کے آپ زیادتی کررہے ہو میرا پستول اور مقدمہ بھی مجھ پر حالانکہ آپ نے میری گاڑی سے لائسنس اٹھایا تھا
👈مذکورہ شخص نے کہا کے میرے پاس آپ کا لائسینس نہیں
👈اتنا اعتبار ان پر کیا جاتا ہے جو قوم کے محافظ ہوتے ہیں ہم گھر پر آرام اور سکون کی نیند سوتے ہیں اس بھروسے پر کے باہر پولیس جاگ رہی ہے میرا گھر میرا مال بیوی بچے محفوظ ہیں
👈لیکن میرا ہی لائسنس قوم کے محافظوں نے غائب کردیا اب آپ قارئین سے پوچھتا ہوں کیا اس سسٹم پر اعتبار کرنا چاھیے کیا پولیس کا سسٹم اس قابل ہے کے ہم ان کے رحم وکرم پر چین اور سکون کی نیند سو سکتے ہیں؟
👈کچھ دیر کے بعد مجھے سائیڈ پر بنے ایک چھوٹے سے کمرے میں بند کردیا گیا اور تنبیہ کی گئی کے آنکھوں سے پٹی نہیں کھولنی
👈اے پتر ہٹا تے نہیں وکدے کی لبدی پھریں بازار کڑے
👈جس کمرے میں مجھے بند کیا گیا اس کا سائز اتنا ہی تھا لیٹ جاو تو کمرہ ختم سر ایک دیوار سے اور پاوں دوسری دیوار سے ٹکرارہی تھیں
👈کچھ دیر سوچتے سوچتے ہلکی سے نیند آگئی نیند تو نیند ہے سولی پر بھی آجاتی ہے. . . . . . . جاری ہے!
…………………..
بلیری کے سات دن
گزشتہ سے پیوستہ
قسط نمبر 3
👈کچھ دیر سوچتے سوچتے ہلکی سی نیند آگئی نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے ایک آواز نے بیدار کردیا چل بھائی اٹھ جا اور باہر آ جا
👈آنکھوں پر پٹی بدستور باندھ رکھی تھی باہر پکڑ کر نکالا تو کرسی پر بٹھا دیا
👈اور پھر ایک لڑکے نے کہا آنکھوں سے پٹی ہٹا دو میں نے فوری حکم کی تعمیل کی اور پٹی ہٹا دی آنکھیں جل رہی تھیں شاید پٹی کی وجہ سے یا شاید نیند کی وجہ سے
👈میری تلاشی لی گئی اور پینٹ کی پیچھے کی سائیڈ کی جیب سے 84370 روپے نکال لئے اور کہا کے آپ کی جیب میں کتنی رقم ہے میں نے کہا کے تقریبا 90ہزار روپے ہیں تو انھوں نے گننا شروع کئے تو جواب آیا 84ہزار تین سو روپے ہیں میں نے جواب میں حضور والا سے فرمایا کے آئی فون جو آپ کے قبضے میں ہے اس کے کور کے پیچھے 5سو روپے بھی موجود ہیں
👈کمرے میں صرف ایک نوجوان تھا جو شاید پشتو زبان بولنے والا تھا اس نے مجھے کہا کے تم پر مقدمہ ہوگیا ہے
👈تھوڑی دیر میں سکون ملا چلو اچھا ہوا جو بھی ہوا اگر مجھ پر مقدمہ نا بنتا تو شاید سی ٹی ڈی اپنے پاوں پر کھڑی نا ہوسکتی تھی مجھ پر مقدمہ بناکر سی ٹی ڈی سول لائن کے ایس ایچ او اور اس کی ٹیم کو آئی جی سندھ کی طرف سے شاباشی ملنے والی تھی یا شاید سی ٹی ڈی کے اعلی افسران کسی بڑے انعام کا اعلان بھی کردیتے
👈آنے والے نوجوان جو سادہ لباس میں ملبوس تھا مژدہ سنایا کے آپ پر 23(i) A کا مقدمہ بنادیا گیا ہے پھر مجھے کہا کے ناشتہ کرنا ہے
👈میں نے اثبات میں سر ہلا دیا اور کہا کے ناشتہ بھی کروں گا اور جب تک یہاں آپ کے پاس ہوں کھانا بھی کھاوں گا
👈ناشتہ آنے تک دوبارہ زبانی کلامی سوالات کرنے لگا اس بار میں گول مول جھوٹے جوابات دیتا رہا
👈ناشتہ آگیا ناشتہ کرنے لگا اور دوران ناشتہ میں نے اس نام نہاد سی ٹی ڈی والے کو کہا دل پر ہاتھ رکھ کر بتاو میرے ساتھ ٹھیک کیا یا غلط!
👈وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا اور بات کو دوسری جانب گھومانے لگا نظریں ملانے کی ہمت نا تھی اس میں!
👈بعض اوقات انسان اپنی اوقات سے بڑھ کر کچھ ایسے کام کرجاتا ہے جو اس کی ساری عمر کا پچھتاوا بن جاتا ہے جو میں اس اچھے ادارے کے کرپٹ اہلکاروں کے خلاف کرنے والا ہوں لیکن مجھے پچھتاوا نہیں ہوگا ہاں ان کو سبق ضرور مل جاے گا تاکہ آئندہ وہ صحافت جییسے مقدس پیشے کو ایسے القابات سے نا نوازیں اور صحافی کو حقارت سے نا دیکھیں
👈نظریں چرانا اور بات کو وہی لوگ گھوما سکتے ہیں جن کا ضمیر رات کے کسی پہر ملامت کرتا ہے اور وہ ضمیر کی آواز سنے بغیر ضمیر کو سلادیتے ہیں
👈ناشتہ ختم ہوا تو اس شخص نے مجھے کہا کے آپ کھڑے ہوجائیں اور اس نوجوان کے ساتھ شعبہ تفتیش میں چلے جائیں اب آپ کا کیس ان کے پاس چلا گیا ہے
👈میں نے جواب میں کہا کے آپ کو مجھ پر مقدمہ کرکے جو خوشی ملی ہوگی وہ آپ دیگر دوستوں کے ساتھ مزے لے لے کر سنائیں گے اور ساتھ میں یہ بھی بولیں گے علی بلیری کو ایسے پکڑا ویسے پکڑا بھاگ رہا تھا وغیرہ وغیرہ تو کھسیانی انداز میں ہنسنے لگا
👈یاد رکھیں اللہ کا ایک نام “المنتقم” ہے جب کسی بیگناہ کی آواز اللہ کے دربار میں پہنچتی ہے نا تو اللہ اس کا بدلہ انتقام کی صورت میں لیتا ہے اگر میں گنہگار تھا جرائم پیشہ کی سرپرستی کرتا تھا جیسا کے سوشل میڈیا پر تحقیر و تشہیر کی گئی تو پھر ٹھیک ہوا میرے ساتھ اور اگر صورت حال اس کے برعکس ہے تو اللہ بہترین انتقام لینے والا ہے
👈مجھے صحافت سے کمانے کا شوق نہیں اور نا ہی میں نے مقدس شعبہ کو اپنی زاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے استعمال کیا میں نے ہمیشہ پیشہ وارانہ خدمات سر انجام دیں اور مقدس شعبہ کی لاج رکھنے میں اپنا ادنیٰ سا کردار ادا کیا
👈صحافتی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوے ہر شعبہ میں ماسٹر کیا الحمداللہ مجھے لفظ کی کاٹ چھانٹ پر عبور حاصل ہے کس الفاظ کو کہاں استعمال کرنا ہے
👈میں نے کبھی کسی کو بلیک میل نہیں کیا میرے بارے میں ناقدین اور حاسد کئی طرح کے پروپگنڈے کافی عرصے سے کرتے آرہے ہیں میں انھیں کتوں سے تشبیہ دیتا ہوں کیوں کے کتے بھونکتے رہتے ہیں اور قافلہ گزر جاتا ہے
👈مجھے شعبہ تفتیش کی طرف لے جایا گیا جو باہر نکلتے ہی بائیں طرف مڑنے کے بعد دائیں طرف واقع تھا اندر گیا تو ایک نوجوان صفائی میں مشغول تھا
👈سلام دعا کے بعد اس کا نام لاہوتی جو غالبا اس کی عرفیت تھی مجھے بیٹھنے کو کہا اور میں صوفہ سیٹ پر بیٹھ گیا
👈ساتھ آنے والے نوجوان نے لاہوتی سے کہا کے آئی او صاحب کہاں ہیں تو لاہوتی نے جواب میں کہا کے وہ کھانا کھا رہے ہیں اوپر کسی کمرے میں یہ سننے کے بعد اس نوجوان نے میری طرف اشارہ کیا کے صاحب آجائیں تو ان کے حوالے کردینا
👈نوجوان کے جانے کے بعد لاہوتی دوبارہ اپنے کام میں مگن ہوگیا اور میں کمرے کا جائزہ لینے لگا
👈کمرہ اچھا صاف ستھرا تھا کمرے میں دو عدد صوفہ سیٹ دو ٹیبل ایک ٹیبل پر لیپ ٹاپ اور دوسری ٹیبل پر پاکستانی جھنڈا رکھا تھا اور کمرے کا ٹمپریچر مائنس پر چل رہا تھا مطلب اتنا ٹھنڈا تھا اے سی کی وجہ سے مجھے سردی محسوس ہونے لگی
👈لاہوتی نے بھانپ لیا اور کہا کے آپ کو سردی لگ رہی ہے تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا. . . . . . . . . . جاری ہے