0

عید الضحیٰ اور سماج

عید الضحیٰ اور سماج
ہر مسلمان بچّہ اپنے بچپن سے ہی جان لیتا ہے کہ عید الضحیٰ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی یاد میں منائی جاتی ہے۔اس عید پر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سنت مبارک کی یاد کو تازہ کیا جاتا ہے۔اور معاشرے کے غریب طبقے کو بھی بڑی عید کی بڑی خوشیوں میں شریک کیا جاتا ہے۔جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اللہ کا حکم ہوا کہ اللہ کی راہ میں اپنی سب سے قیمتی اور پیاری چیز قربان کر دیں تو آپ علیہ السّلام نے راہِ حق میں اپنی سب سے پیاری چیز قربان کر دینے کا فیصلہ کر لیا۔چناں چہ آپ علیہ السّلام کو اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السّلام سے سب سے زیادہ محبت تھی۔تو آپ علیہ السّلام نے انہیں اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا فیصلہ کر لیا۔لیکن اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی جگہ جنت سے آیا دُنبہ ذبح ہو گیا۔اور تب سے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی یاد میں قربانی کی جانے لگی۔درحقیقت عیدِ قرباں کا مقصد ہی خلوصِ نیت سے ایثار اور اللہ کے لیے قربانی ہے۔اگر اس مقصد کو دل میں نہ رکھا جائے۔اور قربانی کر دی جائے تو اس قربانی کا مقصد بلکل ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ابھی بھی عیدِ قرباں کی آمد آمد ہے۔گاؤں،محلّوں،شہروں یہاں تک کہ دنیا کے ہر ملک میں کہیں نہ کہیں سنتِ ابراہیمی کی یاد میں جانور ذِبح کیے جاتے ہیں۔عربی لوگ زیادہ تر اونٹ کی قربانی دینا پسند کرتے ہیں۔سعودیہ سے گوشت دوسرے غریب ممالک میں بھی بھیجا جاتا ہے۔قربانی کا یہی مطلب ہے کہ کوئی غریب یا بھوکا محروم نہ رہ جائے۔مختلف ممالک کا امیر طبقہ بھی یہ اقدام کر کے اللہ کی خوشنودی حاصل کرتا ہے۔گاؤں کی سطح پر عموماً لوگ گائے،بکرا یا بیل وغیرہ کی قربانی کر کے دوست احباب،رشتے داروں یا گاؤں میں بانٹتے ہیں۔یوں جو لوگ سالہا سال گوشت جیسی نعمت سے محروم رہتے ہیں۔وہ بھی بڑی عید کی خوشیوں میں شریک ہو جاتے ہیں۔شہروں،دیہاتوں کی سطح پر بھی دور دراز علاقوں میں گوشت بانٹا جاتا ہے۔یہ سب کچھ صحیح ہے۔لیکن ایک بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔کبھی بھی کسی کا ناحق پیسہ ہڑپ کر کے قربانی ہر گز نہ کریں۔ایسی قربانی کا فائدہ آپ کو یوں ہو سکتا ہے کہ معاشرے میں لوگوں کے سامنے آپ کا وقار بڑھ جائے گا۔یا چار لوگ آپ کی تعریف کر دیں گے۔لیکن اللہ کے نزدیک ایسی قربانی کی کوئی اہمیت نہیں۔مثال کے طور پر آپ کاروبار کر رہے ہیں۔پہلے آپ کسی ایک چیز میں دو سو یا ڈھائی سو منافع لے رہے تھے مگر اب قربانی کا بکرا خریدنے کے لیے عیدِ قرباں کے قریب ایک چیز کے پیچھے چار پانچ سو لینا شروع کر دیے۔جو کہ اکثر کاروباری حضرات کرتے ہیں۔عید کے قریب لوگوں کو مجبوراً اپنے بچّوں کے لیے جوتے،کپڑے خریدنے ہی پڑتے ہیں۔اسی چیز کا دکان دار فائدہ اٹھاتے ہیں۔اگر کوئی کپڑا،جوتا یا کوئی بھی استعمال کی چیز گاہک کو پسند آجائے تو اس کی چُوگنی قیمت بتا کر مطلوبہ قیمت لے لیتے ہیں۔ہو سکتا ہے ہر دکان دار ایسا نہ کرتا ہو۔کچھ دکان دار اور تاجر حضرات ایمان دار اور نیک نیت بھی ہوتے ہیں۔جو گاہک کو کسی بھی چیز کی اتنی قیمت نہیں بتاتے جتنی کہ اس کی پہنچ میں نہ ہو۔مگر اکثر ایسا کرتے ہیں۔گاہک مجبوراً خریداری کرتا ہے۔اور خالی جیب گھر کو لَوٹ جاتا ہے۔ایسے سیلرز اور دکان داروں کو ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔اور اپنے اعمال پر نظر دوڑا لینی چاہیے۔یا اگر دھوکہ دہی سے کام لینا ہے تو قربانی کرنا چھوڑ دیں۔دھوکے جیسا قبیح عمل اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔سورت البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ دھوکہ دینے والے درحقیقت دوسروں کو دھوکہ نہیں دیتے بلکہ اپنی ہی جانوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔اس لیے اس معاملے میں اپنے خیالات و نظریات پر نظر ثانی ضروری است۔اس کے علاوہ پچھلے چند سال میں پاکستان نے بہت مشکلات دیکھی ہیں۔سیلاب زدگان بے گھر و بے آسرا ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں: کپتان اور اس کے کھلاڑی
عید کے موقع پر ایسے بے کس لوگوں کو بھی ہر گز نظر انداز نہ کریں۔اپنی عید کی خوشیوں میں ان لوگوں کو بھی یاد رکھیں۔گوشت یا ہدیے کی صورت میں ان لوگوں تک امداد ضرور پہنچائیں۔ابھی عیدِ قرباں کی آمد آمد ہے۔اگر جیب اجازت دے تو قربانی کا بکرا خریدیں۔جتنے دن بھی اسے اپنے گھر مہمان بنا کر رکھیں۔کوشش کریں کہ اس کو گھر پر چارہ کھلائیں۔کچھ لوگ بکرا تو خرید لیتے ہیں،لیکن وہ بکرا دوسروں کے کھیتوں میں چَرتا ہے۔تو اس طرح ہو تو بلآخر قربانی کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔بڑی عید پر بھی عیدُالفطر کی طرح پوری دنیا کے مسلمان نئے نئے رنگ برنگ کپڑے خریدتے ہیں۔بچے گلی گلی میں گھومتے پھرتے اور عید مناتے ہیں۔اس موقع پر چھوٹے بچّوں کو عیدی دیں تو ان کا خاص خیال بھی رکھیں۔کچھ بچّے عیدی ہاتھ میں آنے کے فوراً بعد گلی محلوں کی دکانوں کے پھیرے لگاتے ہیں۔اور نقصان دہ چیزیں خرید لیتے ہیں۔مثلاً کچھ بچّے صرف اور صرف گن خریدتے ہیں۔جس میں پلاسٹک کی گولیاں ڈالی جاتی ہیں۔ایسی خطرناک گن اگر بچّے کے ہاتھ میں ہو گی تو اس سے کسی اور یا خود اس بچّے کی آنکھوں کو ناقابلِ تلافی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ملک پاکستان میں ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔اس لیے چھوٹے بچّوں کا خاص خیال رکھا جانا از حد ضروری ہے۔خاص طور پر بڑی عید پر اپنی صحت کا بھی خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔کچھ لوگ اتنے بے صبرے ہو جاتے ہیں۔انہیں لگتا ہے۔بس آج گوشت ملا ہے۔اس کے بعد پورا سال کبھی گوشت نہیں ملے گا۔ہمارے گاؤں کی بات ہے کہ ایک شخص نے بے تحاشا گوشت کھا کر اوپر سے زیادہ سی کوک پی لی۔اس کو لگتا تھا گوشت کھانے کے بعد کوک پی لوں گا۔تو اس سے سارا گوشت “سٹامک” معدہ اڈجسٹ کر لے گا۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔معدے نے کچھ بھی اڈجسٹ نہیں کیا۔اور وہ شخص اسپتال پہنچ گیا۔کافی عرصہ اسپتال میں زیرِ علاج رہا۔اب اس کو معدے کی نالی لگ گئی ہے۔اور خوراک کھانا اس کے لیے دشوار تَر ہو چکا ہے۔اگر وہ صبر سے کام لے کر تھوڑا تھوڑا گوشت کھا لیتا۔کوک نہ پیتا یا کم پی لیتا۔تو اس بڑی عید پر بھی اس قابل ہوتا کہ گوشت یا اور اچھی اچھی چیزیں کھا سکتا۔مگر اب وہ اس قابل نہیں۔صرف مشروب کی صورت میں خوراک لے سکتا ہے۔بڑے بزرگ کہا کرتے ہیں۔زیادتی کسی بھی چیز میں ہو۔خواہ وہ پیار ہو یا نفرت!زیادتی بُری ہے۔اس لیے کھانے پینے میں بھی صبر کا دامن تو کبھی نہ چھوڑیں۔ساتھ ہی ساتھ خوراک میں توازن بھی رکھیں۔کم کھا لیں۔کوشش کریں۔اتنا کم کھائیں کہ تاحیات آپ وہ چیز کھاتے رہیں۔کچھ لوگ کھانے پینے میں زیادتی کرتے ہیں۔کچھ ہی عرصے بعد ڈاکٹر اس شخص کو اس چیز سے پرہیز بتا دیتا ہے۔ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو خود وقت پر سیکھ لینا چاہیے۔ورنہ وقت بڑا بے لحاظ ہے۔آپ کو جھنجھوڑ کر سکھا دے گا۔اپنا اور اپنے پیاروں کا خیال رکھیں۔بڑی عید کی بڑی خوشیاں مبارک!!!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں