از قلم روبیہ مریم روبی
بھمبر سے میرپور
آج بھی میرپور ویسا ہی ہے،جیسا تین سال قبل تھا۔ترقّی دیکھنی ہو تو بھمبر آئیے۔بھمبر میں نئی نئی عمارتیں،ہسپتال،شاہراہوں کے اشارے،”جو کسی چوک وغیرہ کی نشان دہی کرتے ہیں”بدل چُکے۔کچھ تو پہاڑوں کو کاٹ کر نئی طرز پر “روز گارڈن”کی ایڈورٹائزمنٹ بھی کر دی گئی۔پانچ چھ سال بعد جب میرا بھمبر شہر جانا ہوا تو یہ تبدیلیاں دیکھیں۔لیکن جب تین سال بعد میرپور گئی۔تو وہ ویسا ہی تھا جیسا تین سال قبل ماسٹرز کرنے کے بعد میں چھوڑ کر گئی تھی۔بس اگر کسی کی مزید حالت بگڑی ہے تو وہ ایک ایسی عمارت تھی۔جس میں میرے دو سال گزرے تھے۔یعنی میرے کالج کی عمارت،اب وہ اس قابل نہ تھی کہ اس میں دو منٹ بیٹھ کر پرانی یادیں تازہ کی جا سکیں۔اب وہاں پہلے جیسا کچھ نہیں تھا۔عجیب و غریب طریقے سے گراؤنڈ کو توڑ پھوڑ کر انگلش اردو ڈیپارٹمنٹ کو گھلا ملا دیا گیا تھا۔نہ شعبۂ اردو کی پہچان ہو پا رہی تھی۔نہ شعبۂ انگریزی کی سمجھ آ رہی تھی۔وہ داخلی دروازہ ہی غائب تھا۔جس سے شعبۂ اُردو میں داخل ہوتے تھے۔یہ منظر دیکھ کر دل افسردہ ہو گیا۔مگر جب ایک ملازم کی زبانی سُنا کہ ایم۔اے اُردو بلکل ختم کر دیا گیا ہے تو دل ٹوٹ گیا۔خیر اب ہم نے کون سا ایم۔اے اُردو کرنے دوبارہ وہاں جانا تھا۔بس اس بات کا افسوس ہوا کہ جہاں دو سال پڑھا۔جہاں بُلبلیں اٹھکھیلیاں کرتی تھیں۔کوّے کاں کاں کرتے تھے۔رنگ برنگ لوگ شیخیاں بگھارتے تھے۔اب وہاں کونوں کھدروں میں چھپے ہوئے بھنورے اور کیڑے پتنگے رات کے اندھیرے میں ٹِیں ٹِیں کرتے ہیں۔نیولے کبھی کبھار ہی نظر آیا کرتے تھے۔کیاریوں میں چُھپے رہتے تھے۔اب ان کو کسی سے چُھپنا نہیں پڑتا۔سرِعام دندناتے پھرتے ہیں۔جہاں ایک پُررونق لائبریری ہوا کرتی تھی۔چھوٹی سہی مگر وہاں لوگوں کی آمدورفت جاری رہتی تھی۔اس پر تالا پڑا تھا۔شعبہُ اردو میں سال اوّل اور سال دوم کے لیے دو ہی کمرے تھے۔اور دو ہی آفس تھے۔ایک صدرِ شعبہ کے لیے!دوسرا پروفیسروں کے لیے۔آفس سے باہر چھوٹی چھوٹی الماریاں ہوا کرتی تھیں۔جن میں درجنوں کتابیں آپس میں گتھم گتھا رہتی تھیں۔گرد کی وجہ سے صحیح نظر نہیں آتی تھیں۔یہ سال اوّل والوں کے کمرے کے باہر تھیں۔اب وہاں بھی تالا پڑا تھا۔شعبے کے دونوں کمروں میں بے حد دوریاں نظر آ رہی تھیں۔میں تو پہچان نہیں پائی۔یہ وہی جگہ ہے۔جس کو پانچ سال قبل خیر باد کہا تھا۔پھر ایک دفعہ ڈیڑھ سال بعد میرپور آنا ہوا تھا۔مگر ہاسٹل سے کھانا کھا کر واپس گھر جانا پڑا۔بوجہ اسکول میں پڑھا رہی تھی۔اگر دوبارہ میرپور دیکھنے میں مگن ہو جاتی تو ہمارے حصّے کے تین چار سو بچّوں کو کون اردو پڑھاتا۔خیر ہمارے میرپور کو خیر باد کہنے کے بعد ہماری نظر میں میرپور دو بڑی تبدیلیوں سے گزرا۔پہلی یہ تھی کہ زلزلوں نے میرپور کو کافی ہلا جُھلا اور گِرا کر دیکھا۔مگر میرپور نے ہار نہ مانی تو قدرت نے اس پر خاص رحم کیا۔دوسری تبدیلی یہ تھی کہ گورنمنٹ بوائز کالج نے ایم۔اے اردو کو جلاوطن کر دیا۔پتہ نہیں کتنے سالوں کے لیے!؟مگر ہاں۔جہاں جامن رنگ اور گلابی فیتے کے دوبٹے والی لڑکیاں مل بیٹھتی تھیں۔ہرے ہرے میدان میں بریانی کھایا کرتے تھے۔شعبۂ انگریزی والے بھی کبھی کبھی ہمارے شعبے میں آ جاتے۔گھومنے پھرنے اور پڑھنے پڑھانے۔اب وہاں ٹڈیاں،نیولے،جنگلی کیڑے،پتنگے اور جانے کس قسم کی جنگلی مخلوقات گزر بسر کر رہی ہیں۔ترقی بھی ہوئی ہے۔شاید انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں داخلے کے لیے جس روِش پر چل کر آتے تھے۔اور اس کے ساتھ کچھ گھر تھے۔وہاں سے صفائی کر کے ایک کالج بنایا گیا ہے۔اردو والے دربدر نہیں ہوئے۔جلاوطن ہوئے ہیں۔
بے چارے!!!
ٹوٹی پھوٹی عمارت ابھی بھی یاد آتی ہے۔فریش کارنر سے دیکھیں تو بہت ہی خستہ حالت میں موجود ہے۔جب کہ جب میں کالج کے اندر سے کھڑے ہو کر باہر دیکھتی تھی،تو ائیر لائنز کمپنی کا آفس بہت ہی دلکش لگتا تھا۔باہر کی ہر چیز دلکش تھی،ہے اور رہےگی،سوائے شعبۂ اُردو کے!!! اب میں سارے راستے بھول گئی تھی۔جب کالج کے گیٹ سے اندر داخل ہوئی تھی تو سمجھ نہیں آرہا تھا۔دو سال جس راستے سے کالج جاتی رہی۔وہ کہاں ہے۔اچانک ایک عاشق مزاج جوڑا دلگی کی باتیں کرتا ہوا میرے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔میں بھی آگے آگے چلتی رہی۔اپنے پاؤں کی آہٹ سنتی سنتی جا رہی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: کپتان اور اس کے کھلاڑی
جوڑے کی آوازیں مدہم ہو رہی تھیں۔پیچھے مڑ کر تو نہیں دیکھا۔البتہ شعبے میں جانے کا راستہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے پروفیسروں کے ہاسٹل میں جا نکلی تھی۔ایک پروفیسر سے راستہ پوچھا تو انہوں نے واپس مڑ کر بائیں طرف گیٹ سے اندر جانے کا کہا۔ایسا ہی کیا۔آگے کیا ہوا وہ اوپر بیان کر چکی ہوں۔کالج کی کینٹین بھی کہیں کھو گئی ہے۔جہاں سے چاٹ اور بریانی ہم نے ہی سب سے زیادہ کھائی تھی۔آج مل بھی جاتی تو کالج کی حالت دیکھ کر آج میں کچھ نہ کھاتی۔بزرگ ساتھ تھے۔ان کو کرسی پر بٹھا کر کالج میں گئی۔ایم۔اے کی ڈگری کے لیے اپلائی کیا۔اور بزرگوں کے ساتھ مسٹ یونیورسٹی پہنچ گئی۔مسٹ کے نَک چڑھے گارڈز نے یونیورسٹی کے اندر قدم نہیں رکھنے دیا۔کہا:انّی دا مذاق اے!مجھے ایک بار کسی کلرک سے مل کر بات تو کرنے دیں۔پانچ منٹ بعد گارڈز نے دروازہ کھول دیا۔جاؤ جی جتھے وی جانا جے!کلرک کے آفس میں فارم جمع کروایا۔اور یاد آیا۔اپن تو میٹرک کا رزلٹ کارڈ نہیں لائے۔گھر سے میٹرک کا رزلٹ کارڈ منگوایا۔جو کہ ایک گھنٹے میں ملا۔گرمی سے بُرا حال تھا۔ہیڈ کلرک کے کہنے پر آفس میں موجود ایک چاچو نما کلرک سے پرنٹ نکلوانا چاہا۔اس کو رزلٹ کارڈ ای۔میل کیا۔بیس منٹ بعد اس نے کہا۔میل پہنچ آئی ہے۔ابھی پرنٹ نکالتا ہوں۔آدھے گھنٹے بعد اس نے بتایا۔میل تو آ گئی ہے۔سسٹم لنک نہیں ہو رہا میل کے ساتھ۔ایک گھنٹے بعد کہنے لگا۔اب آپ کہیں سے بھی پرنٹ نکلوا لائیے۔ہمارا سسٹم کام نہیں کر رہا۔اب میں کیا کرتی۔سوچیں ذرا میں نے کیا کِیا ہو گا؟آفس سے باہر بچّوں سے پوچھا۔پرنٹ نکلوانا ہے۔کوئی فوٹو کاپی شاپ ہے۔تو معلوم پڑا۔بنک کے پچھلے ایریا میں ٹَک شاپ کے ساتھ فوٹو کاپی شاپ ہے۔وہاں سے پرنٹ نکلوایا۔انتہا درجے کا بلر!!!پھر دوبارہ گھر سے بھائی سے میٹرک کے رزلٹ کارڈ کی فوٹو کاپی منگوائی۔جو کہ آدھے گھنٹے بعد ملی۔کلرک کا بھلا ہو۔جس نے وہی فوٹو کاپی قبول کر لی۔اب ہمارے آئڈی کارڈ کی فوٹو کاپی رہ گئی تھی۔ہم نے معصومیت سے کہا۔وہ تو بنک میں چالان فیس اٹھائیس سو ساٹھ روپے جمع کروائی ہے۔انہوں نے لے لی ہے۔کہا آپ کے پاس آئڈی کارڈ ہے؟بولا جی۔ہیڈ کلرک نے ہاتھ کے اشارے سے ساتھ والے کلرک کو اٹھایا۔اور گردن کے اشارے سے کہا۔فوٹو کاپی کروا کر لاؤ۔ہمارا دل باغ باغ ہو گیا۔کم از کم اب باہر دھوپ میں لمبا چکر کاٹ کر فوٹو کاپی کروانے نہیں جانا پڑے گا۔جو شخص فوٹو کاپی کرنے جا رہا تھا۔اس نے منہ بسورا۔پھر ہم نے اوریجنل آئڈی کارڈ اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔اس کے بعد مسٹ کے جڑی کَس پارک میں پارسل بھیجنے کی تیاری شروع کر دی گئی۔ہم یہ پوچھے بغیر کہ اس کے ڈیلیوری چارجز کتنے ہیں۔آرام سے وہاں سے کِھسک لیے۔چلتے چلتے فریش کارنر پر پہنچے۔میں اور ابّا جی نے کولڈ ڈرِنکس کے ساتھ لوڈڈ چکن فرائز اور فروٹ چاٹ کیا کھا لی۔ہم سے سات سو روپیہ اڑا لیا گیا۔خیر ایک اریبِک کیلی گرافی کے لیے کینوس خریدا۔اور دوست کا گھر ڈھونڈنے لگی۔جو ہمیشہ کی طرح آج بھی بھول گئی تھی۔اس کو فون کیا۔کافی تگ و دَو کے بعد اس کا گھر مل گیا۔کُلچے کے ساتھ چائے پیتے اور باتیں کرتے کرتے جانے کب دو گھنٹے گزر گئے۔پتہ ہی نہ چلا۔دو بجے کے قریب اڈے میں پہنچے۔چھمب والی گاڑی میں بیٹھے۔اور لیموں پانی پیا۔میرپور کو الوِداع کہتے ہوئے پانچ بجے کے قریب گھر پہنچ گئے۔مچھلی چوک کی ماہی بے آب،اس کے سامنے کھاڈی کی عمارت،غازی مارکیٹ اور وہ ساری سڑکیں!جو کہیں سے آ کر ہمارے کالج پر ختم ہوتی تھیں۔وہ سب ابھی بھی یاد ہیں۔بس اب میرپور چھوٹا سا لگنے لگا ہے۔