سانحہ 9 مئی
کپتان اور اس کے کھلاڑی
تحریر: فرقان احمد سائر۔
حکومتی جماعتوں اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان کم و بیش دو سالہ محاز آرائی کا سلسلہ اس حد تک پہنچا کہ سانحہ 12 مئی کا واقعہ جس میں بلدیہ فیکٹری میں تقریبآ 260 افراد ہلاک ہوگئے تھے، اور دوسرے دن شہر میں خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی ہر 12 مئی کے واقعہ پر سوشل میڈیا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سمیت دیگر ذرائع ابلاغ پر پر خصوصی پروگرام نشر کئے جاتے رہے۔ مگر سانحہ 9 مئی کے واقعہ نے 12 مئی کے واقعہ پر دھول ڈال دی۔ جس طرح ایک گروہ کے بلوائیوں نے پاکستان کی مقتدر قوتوں کی املاک کو نظر آتش کیا جس سے ملک میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی وہیں ملک دشمن ممالک نے خوشی کا اظہار کیا کہ جو کام ہماری ملک کی ساری ایجنسیاں مل کر نہیں کر سکتی وہی کام نیا پاکستان کا راگ لاپنے والی جماعت تحریک انصآف نے کر دکھایا۔ ملک دشمن جماعتوں اپنے اس کارنامے کو سوشل میڈیا میں فخریہ انداز میں پیش کیا جس سے یقینآ پاکستان کی ساکھ مجروع ہوئی۔ دنیا بھر کے چھوٹے بڑے نجی چینلز اور ویلاگرز نے پاکستان کی موجودہ صورتحال دکھاتے رہے۔ سوشل میڈیا کے ذرائع ابلاغ جس میں فیس بک، ٹوئیٹر ، یو ٹیوب و واٹس ایپ گروپس گردش کرتی رہیں۔
اس پورے عمل کا مقصد یہ تھا کہ ملک میں پاکستان کی مقتدر قوتوں کے خلاف نفرت میں اضافہ کرنے کے ساتھ محاز آرائی اور خانہ جنگی شروع کی جائے جس کے باعث پاکستان تحریک انصاف کے سرکردہ رہنماوّں اور لیڈران کو اپنا بیانیہ مضبوط کرنے کا بہترین بہانہ مل سکے۔ شدت پسند عناصر کا مقصد بھی یہ ہی تھا کے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت خاص خاص مقامات کو ہی نشانہ بنایا جائے تاکہ عالمی دنیا کی نظروں رسائی ممکن ہوسکے۔ اسی ناپاک منصوبے کے تکمیل کے لئے پاکستان کے مخصوص شہروں جن میں کراچی جو کہ اہم مرکز سمجھا جاتا ہے۔ وہاں کی معروف شاہراہوں اور کراچی کو دوسروے شہروں سے ملانے والی سڑکوں کو بلاک کر دیا۔ کراچی کے باشندے کئی گھنٹوں احتجاج میں پھنس کر کروڑوں روپے کا ایندھن جلا بیٹھے۔ محدود اندازے کے مطابق شرپسندوں کی جانب ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں کراچی کی دو پیپلز بسوں کو آگ لگائی گئی۔ دو واٹر ٹینک کو جلا دیا گیا۔ جبکہ پولیس کی موبائل ، قیدی وین کو آگ لگانے کے ساتھ ساتھ شارع فیصل پر لگے 70 سے ذائد درخت، 30 کے قریب موٹرسائیکل کو نذر آتش کرنے کے ساتھ ساتھ رینجرر اور پولیس کی چوکیوں کو بھِی نشانہ بنایا گیا۔ نجی املاک کو نقصان پہنچانے ،کئی مقامات پر لوٹ مار کا عمل بھی جاری رہا۔
جلاوّ گھیراوّ کے اس واقعات میں پاکستان کی مقتدر قوتوں کی جانب سے فوری طور کسی قسم کے ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا جس کے باعث شرپسندوں کے مذموم مقاصد پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے۔ تاہم ریاست کے اندر ریاست بنانے والی تنظیم کے مذموم مقاصد ساری دنیا کے سامنے آچکے تھے۔ پھر ریاست نے ملک میں افراتفری پھیلانے والے، جلاوّ گھیراوّ اور توڑ پھوڑ کے عمل میں براہ راست حصہ لینے والوں کے خلاف کریک ڈآوّن کا آغاز کیا اس حوالے سےسی سی ٹی فوٹیج اور شرپسند عناصر کی جانب سے چلائی گئی وڈیوز اور فوٹیج کی مدد سے ملزمان کے چہرے شناخت کروانے کا عمل جاری رہا اور پکڑ دھکڑ شروع ہوئی ۔ ملک کے کئی شہروں چھاپے اور گرفتاریوں کے عمل سے ہزاروں کارکنان پکڑے گئے اور کئی روپوش ہو کر نا معلوم مقام پر منتقل ہوگئے۔ گرفتاری اور پکڑ دھکڑ کے دوسرے فیز میں کپتان کے ان کھلاڑیوں کے خلاف کریک ڈاوّن شروع ہوا جو سوشل میڈیا کے ذریعے پاک فوج اور ملک کی بدنامی میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔ پاکستان تحریک انصآف کے کئی سرکردہ رہنماوّں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اور کراچی میں سب سے زیادہ بولے جانا والا ایک محاورہ جس کے مطابق ان رہنماوّں کو ڈرائی کلین مشین میں ڈالا گیا جس کے بعد سے کپتان کی وکٹیں گرنا شروع ہوئیں۔ توازن کا پلڑا بگڑا تو پاکستان تحریک انصاف کے ہزاروں کارکنان نے اپنی پوسٹیں، کمنٹ ڈلیٹ کرنا شروع کر دیں۔ تاہم ملک کے سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف مکمل شواہد موجود ہونے باعث قانون کی گرفت میں لائے جانے کا عمل جاری رہا۔
سینکڑوں اقبالی بیان منظر عام پر آئے جس میں جلاوّ گھیراوّ کے عمل کا حصّہ بننے والے افراد نے اپنے اس عمل کی معافی طلب کی اور کہا کے وہ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی قیادت کے اکسانے پر اس عمل کا حصہ بنے جس پر معذرت خواہ ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے اس عمل سے نا صرف شہر قائد کی مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے مذمتی بیانات جاری ہوئے بلکہ کراچی کے باشندوں کا درعمل بھی سامنے آیا جہاں انہوں نے پاکستان کی فوج سے اظہار یکہجی کا اعلان کرتے ہوئے جلسے ، جلوس ریلیاں منعقد کی اور غم و غصہ کے درعمل کو ظاہر کر تے ہوئے مختلف علاقوں سے پاکستان تحریک انصاف کے جھنڈے، بینرز اور پوسٹرز اتار کر آگ لگا دی۔ سیاسی تناوّ کے باعث پاکستان کی معیشت پر بھی کافی گہرا اثر پڑا ملکی تاریخ میں ڈآلر کی قیمت تاریخی سطح کی بلندی کو بھی کراس کر گئی جس سے صرف اور صرف عام آدمی متاثر ہوا اور اس کا براہ راست اثر متوسط طبقہ یا یومیہ اجرت کمانے والے شخص کو ہوا کیونکہ مہنگائی میں جس قدر اضافہ ہوا عام شہریوں کی چیخیں نکل گئیں۔ اسی سیاسی جنگ میں جہاں نفرتیں بڑھیں وہیں بیچ میں ایسی دیواریں بھی حائل ہوگئیں کہ شائد جس کا خلا پر کرنے میں نصف صدی سے بھی زائد عرصہ درکار ہو۔