از قلم روبیہ مریم روبی
لمحۂ فکریہ
کیا لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے؟کیا لوگ اپنی مرضی سے ریاست کے ظلم وستم برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں؟کیا لوگوں کو اب یا مستقبل قریب میں اپنا کوئی مفاد نظر آ رہا ہے؟آخر وجہ کیا ہے؟یا جہالت ہے؟شعور؟یا کوئی اور سبب؟آخر ہے کیا؟جو بھی ہو!!!میں تو یہی کہوں گی! لمحۂ فکریہ ہے!!!آج کل جو ملکی حالات چل رہے ہیں۔بڑے لوگوں کے لیے تو لمحۂ فکریہ ہے ہی!!! نوجوانوں ،بچوں،ماؤں اور اداروں کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔اب اداروں کو دیکھنا ہے کہ ان کے زیرِ انتظام تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کی تربیت میں کون سی چیز شامل کرنے کی ضرورت ہے؟اپنے حق کے لیے بولنا بہت اچّھی بات ہے۔زیادتیاں کرنے والوں کے خلاف کھڑا ہونا اور بولنا اچھا ہے۔ضرور بولیں!لیکن یاد رہے۔امن کی ضرورت و اہمیت کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اگر ہم امن کی اہمیت کو نظر انداز کر دیں تو اس کا مطلب ہے ہم احمق ہیں!اور آپ کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ایک پی۔ٹی۔آئی کے کارکن نے،جس کا تعلق گجرانوالہ سے ہے۔اس نے نہ صرف آئندہ ایسی سرگرمیوں،جن میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کا اندیشہ ہو!!ان سے باز رہنے کا عزم کیا،بل کہ اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ قیادت لوگوں کو استعمال کرتی ہے۔یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں۔تو آپ اپنے آپ کو منفی مقاصد کے لیے کسی کو نہ استعمال کرنے دیں۔اگر مثبت مقاصد ہوں تو آگے بڑھنے اور قیادت کا ساتھ دینے سے کبھی گریز نہ کریں۔عوام کو آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے۔سرِ عام سڑکوں پر تشدّد کئی لوگوں کی جان لے لیتا ہے۔شیلنگ سے آنکھیں خراب ہو جاتی ہیں۔معصوم اور بے گناہ ماؤں کے بچّے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اب جو ملک کے حالات چل رہے ہیں۔ریاست پر بھی کئی ذمّہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ شہریوں کو تشدّد اور ظلم و ستم سے محفوظ رکھے۔عوام کو بھی چاہیے کہ سرکاری اداروں اور سرکاری چیزوں کا نقصان کرنے سے گریز کریں۔اس سے پاکستان کا بدترین چہرہ دنیا کے سامنے آتا ہے۔دنیا میں موجود پاکستان کے مخالفین دل ہی دل میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔خیر ہوا سو ہوا۔اساتذہ،اداروں اور بااثر شخصیات کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں،طلبہ و طالبات ،ملازمین اور اپنے ساتھ جُڑے ہر طبقے کے لوگوں کو حقوق پر آواز اٹھانا تو سکھائیں مگر “امن” کی اہمیت کو نہ بھولنے دیں۔عمران خان ایک مقبول ترین عوامی لیڈر ہے۔ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا،غلط ہوا۔انسانیت کی تذلیل مسئلے کا حل ہر گز نہیں۔اس واقعے کی جتنی مذمّت کی جائے کم ہے!لیکن غلطی کرنے والوں نے غلطی کو سُدھارنے کی کوشش بھی کی!کہا جا سکتا ہے کہ عوامی مظاہروں نے عمران خان کی رہائی میں کردار ادا کیا ہے۔سوال یہ ہے کہ احتجاج پُرامن کیوں نہیں تھا؟کیا پاکستان جیسے ملک کو امن کی ضرورت نہیں؟خان نے دو دن اور دس دن بعد بھی رہا ہونا ہی تھا۔اب جو جسمانی ریمانڈ پر جیل میں سڑ رہے ہیں!ان کا کیا؟خیر جو ہونا تھا!!!سو ہو چکا۔اب عوام کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ہر شخص اپنے آپ کو جواب دہ سمجھے۔ذِمّہ داری کا مظاہرہ کرے۔حالات کا گہرائی سے تجزیہ کریں۔جو لوگ ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ان کے ساتھ چلیں۔اور جو اس کے متضاد ہیں۔ان سے بچیں۔انسان بہت ہی نایاب اور مہنگی چیز ہے۔میر نے کہا تھا ناں!!جس کا مفہوم یہ ہے کہ!فلک برسوں پھرتا ہے،تب ایک انسان جنم لیتا ہے۔انسان حقیر ہے،نہ ہی سستا۔پاکستان اور آزاد کشمیر میں آئے روز کئی گھناؤنے واقعات جنم لے رہے ہیں۔فلاں صحافی کو،فلاں شخص کو،فلاں بچے اور فلاں کارکن کو فلاں نے مار دیا۔بھئی کیوں؟آخر کیوں؟لوگ اتنے سستے ہیں کیا؟ماؤں،بہنوں،باپ،بھائیوں اور دوسرے قریبی رشتوں کے جذبات اتنے سستے ہو چکے ہیں کہ ان کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی؟انسان کیا اتنی حقیر چیز ہے؟ظلم کرنے والوں کو اگر انسان اتنے حقیر لگتے ہیں تو ان کو اپنا وجود حقیر کیوں نہیں لگتا؟ان کو اپنا وجود فانی کیوں نہیں لگتا؟جن کو ایسا نہیں لگتا یقیناً وہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی تعلیمات سے بہت دور ہیں۔بااثر لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہونا چاہیے۔امیر ترین لوگوں کو بھی زیادہ غریبوں اور لاچار لوگوں کا احساس کرنا چاہیے۔اللہ کا زیادہ شکر ادا کرنا چاہیے کہ جس نے اتنا نواز رکھا ہے۔کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ آزاد کشمیر میں ایک ٹھیکے دار ٹائپ کے آدمیوں نے کسی گھر کے یتیم اکلوتے چشم و چراغ کو قتل کروا دیا۔اس یتیم لڑکے نے صرف اس بات پر آواز بلند کی تھی کہ تم لوگ جس زمین پر قابض ہو رہے ہو!یہ میرے باپ کی جائیداد ہے۔اس کو چھوڑ دو۔تو اس بااثر ٹولے نے اس بچّے کو مروا دیا۔اللہ اللہ!ایک ماں ہو۔اس نے بچّے کو جنم دینے کے تکلیف دہ مراحل سے گزرنے سے لے کر جوانی تک پہنچانے میں کتنی تکلیفیں اور اذیتیں جھیلی ہیں۔کیا اس ماں کو ظالم لوگ اتنا حق نہیں دیں گے کہ وہ اپنے بیٹے اور گھر کی رونق سے بڑھاپے میں آنکھیں ٹھنڈی کر سکے؟؟؟آخر کیوں؟لالچ پیٹوں میں بھر گئی؟اس لالچ کو آج کا تیز ترین انسان جہادِ اکبر کے ذریعے ختم کیوں نہیں کرتا؟ورنہ قبر کی مٹی تو اس کو ختم کرے گی ہی کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: عدم برداشت کا کھیل۔
ایک مشہور واقعہ سنایا جاتا ہے کہ ایک ملکہ اپنی نوکرانی کو صرف اس لیے مارتی پیٹتی تھی کہ اس نے ملکہ کے لیے سُرمہ پیستے ہوئے خیال نہیں رکھا۔اور مٹی ریت سُرمے کے ذریعے ملکہ کی آنکھوں میں چلی گئی۔کچھ عرصے بعد جب ملکہ مر گئی۔قبرستان کے پاس سے ایک دین دار آدمی کا گزر ہوا۔اس نے دیکھا۔قبر سے کھوپڑی باہر پڑی ہے۔اور کھوپڑی میں آنکھوں کے راستے سے چڑیاں اندر آ جا رہی ہیں۔اس شخص نے تحقیق کی۔یہ کس کی قبر ہے؟معلوم ہوا یہ اسی ملکہ کی قبر ہے جو آنکھوں میں ریت اور گرد برداشت نہیں کر سکتی تھی!اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس ملکہ کو عبرت کا نشان بنا دیا تھا!آج بھی وقت ہے۔ابھی توبہ کر لیں۔ابھی اللہ سے معافی مانگ لیں۔ورنہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔جو دنیا کے بااثر ترین شخص فرعون کو عبرت بنا سکتا ہے!قارون کو عبرت بنا سکتا ہے۔تو یاد رہے تاریخ کے بارے میں ایک بات بہت مشہور ہے:“تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے“۔جتنا ہو سکے،ملک میں امن و امان کی اہمیت کو نظر انداز نہ کریں۔انسان کو انسان سمجھنا شروع کریں۔جب آپ کی ہزاروں غلطیوں کو اللہ تعالیٰ نظر انداز کر رہا ہے!آپ کو معافی مانگنے پر معاف کر رہا ہے۔تو اللہ کے بنائے لوگوں کی غلطیوں پر آپ بھی صبر کرنا سیکھیں!!!مائیں گود سے بچّوں کو برداشت اور صبر میں فرق سکھانا شروع کریں۔
پچھلے زمانوں میں جو اولیا اور بڑے بڑے عالمِ دین پیدا ہوئے۔ان کو ان کی ماؤں نے ہی ایسا بنایا ہے۔ایسے ہی نہیں کہتے۔ایک عورت سیدھی ہو تو نسلیں سنور جاتی ہیں۔یہ بات کسی وجہ سے کہی جاتی ہے۔خیر اس پر تفصیلی بات چیت پھر کبھی ہو گی۔بس اتنا یاد رہے ہر بڑے پر اس کے چھوٹے کی ذمّہ داری ہے۔