از قلم روبیہ مریم روبی
گھریلو سیاستیں
کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ گھریلو سیاستیں کیسے،کب اور کیوں جنم لیتی ہیں۔یہ کسی کے دماغ کی منفی سوچ کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہیں۔اور حالات سے تنگ آئے مجبور لوگوں کی اندرونی بھڑاس بھی ہو سکتی ہے۔گھریلو سیاستوں نے بہت سی زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ہر شخص اپنا اپنا اُلّو سیدھا کرنے میں مگن ہے۔مگر
اس دنیا کا نظام کچھ ایسا ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کے بغیر تن تنہا گزر بسر نہیں کر سکتا۔ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے لیے معاشرے اور افراد کی ضرورت پڑتی ہے۔متوسط طبقے میں عموماً گھروں کے سربراہان کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہوتا کہ اگر ان کے پانچ یا چھ بیٹے ہیں تو ان سب کی دلہنوں کو دس دس تولے سونا پہنائیں اور شادی ہوتے ہی الگ گھر بنا کر دیں۔تا کہ بہو تو خوش رہے ہی رہے۔بہو کے گھر والوں کا دل بھی مطمیئن رہے اور ان کا رویہ بھی بیٹی کے سسرال کے ساتھ بہتر رہے۔
یہ بھی پڑھیں: عدم برداشت کا کھیل۔
آج کل ہر گھر میں ایک آدھ ڈپریشن کا مریض نکل رہا ہے۔ہر انسان کو اپنے اندر موجود کسی نہ کسی کمی کا احساس ہے۔ایسی کمی جو صرف اور صرف اللہ کی مرضی سے ہے۔انسان کا اس میں بس نہیں چل سکتا۔اس منفی رویے نے آج کل بڑے بڑے نفسیاتی امراض کو جنم دے رکھا ہے۔ان تمام امراض میں سے ایک مرض گھریلو سیاست بھی ہے۔مثال کے طور پر کسی گھر میں پانچ بہووئیں ہیں۔اور بوجہ غربت سب اکٹھی رہ رہی ہیں۔تو ایک اگر کالی ہے۔دوسری نارمل ہے۔اور تیسری زیادہ گوری ہے۔تو کوئی ایک کالی دیورانی یا جیٹھانی کو دوسری اپنے ہی گھر کی عورت کے سامنے “کالی” کہہ سکتی ہے۔اور جس کے سامنے وہ اس کی خامی!جو کہ دراصل خامی نہیں۔مشیتِ خدا تعالیٰ ہے۔”بیان کرے گی۔وہ مرچ مسالہ لگا کر اس عورت تک بات پہنچا دے گی۔اور متاثرہ عورت کمپلیکس کا شکار ہو کر ڈپریس ہو گی۔اپنے رنگ سے چِڑنے لگے گی۔اور اس کے دل میں ایسی خود ساختہ باتیں بنانے والی عورت کے خلاف بغض پیدا ہو گا۔یہی بغض گھریلو سیاست کو جنم دیتا ہے۔دو دو تین تین خواتین گروہ بنا کر کسی ایک کو نشانہ بنانا شروع کر دیتی ہیں۔کچھ خواتین میں ایک یہ منفی عادت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ کسی ایک فرد کو اس کے منہ پر مکھن میں گوندھ دیتی ہیں۔اور پیٹھ پیچھے وار کرتی ہیں۔کچھ خواتین کی فطرت میں یہ عادتِ بد راسخ ہو چکی ہوتی ہے۔جس کا خمیازہ کسی بے قصور خاندان کی نسلیں بھگتتی ہیں۔آج کل لوگوں میں سے قوتِ برداشت تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے۔اگر کسی خاندان کے پانچ بیٹے ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔سب شادی شدہ ہیں۔ایسے خاندان گھریلو منفی سیاست کا گڑھ بن جاتے ہیں۔لوگ بھول جاتے ہیں کہ اتفاق میں برکت ہے۔ہر بہو اپنا اپنا اُلّو سیدھا کرنے میں مصروف ہو جاتی ہے۔وہ بندہ جس سے فائدے کی اُمید ہو۔اس کو طرح طرح کی باتیں بنا کر دوسروں کے خلاف کر دیتی ہیں۔اور اپنا مفاد نکالتی ہیں۔دیکھا دیکھی بچّوں کو طرح طرح کے نئے نئے کپڑے پہنانے کے لیے جتنا دل چاہتا ہے!خرچہ کرتی ہیں۔حالاں کہ جب غربت ہو تب بچّوں کی پڑھائی سب سے اہم ہونی چاہیے نہ کہ ہر روز نئے نئے مہنگے کپڑے خرید کر دیکھا دیکھی گلیمر کی بھاگ میں شامل ہو جائیں۔اب تو مہنگائی اتنی ہو چکی ہے کہ گھر کے ہر فرد کو کمانا چاہیے۔اپنی ہر صلاحیت کو استعمال کریں۔جو بھی پوشیدہ صلاحیت ہو،اس کو استعمال کریں!نہ کہ عورتیں عورتیں اکٹھی ہو کر ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنا شروع کر دیں۔معاشرے میں ایک اور کیڑا بھی پیدا ہو چکا ہے۔جب نئی نئی بہو گھر میں آتی ہے!تو ساس،نندیں،بھائی سب بہت خوش ہوتے ہیں۔نندوں کو نئی بہن مل جاتی ہے۔دولہے کے بھائیوں کو نئی بہن ملتی ہے اور ساس کو بیٹی مل جاتی ہے۔بہت کم بہوئیں ایسی ہوتی ہیں جو سسرال کو اپنا گھر سمجھتی ہیں۔زیادہ تر خواتین شادی کے فوراً بعد شوہر کو بہنوں اور ساس کے خلاف کر کے اپنی طرف کر لیتی ہیں۔ہر وقت بیوی کے حقوق پر بات کرتی رہتی ہیں۔بہن بھائیوں اور ماں باپ کا نام تک لینے نہیں دیتیں۔کم عمر یا کم عقل مرد ڈپریس اور مایوس ہو کر شاطر بیوی کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔اور بیوی کی خاطر بہن،بھائیوں اور ماں باپ سے بلاوجہ بِھڑ جاتے ہیں۔گھر والوں سے بدگمان ہو جاتے ہیں۔ماں باپ سے تمیز سے بات کرنا بھول جاتے ہیں۔بہت سے مرد ایسا کرتے ہیں۔ایک دفعہ میری ایک دوست اپنے گھر کے حالات بتانے لگی کہ وہ بھابھی جس کو وہ بڑی چاہ سے بیاہ کر لائی تھی۔اب اس نے اسے اور اس کے بھائی کو الگ کر دیا ہے۔وہ ہر وقت اس کے بھائی کو بہن کے خلاف باتیں گھڑ گھڑ کر سناتی رہتی تھی۔اس کے بھائی نے ایک دن اپنی بہن سے ہمیشہ کے لیے رشتہ ہی توڑ دیا۔ایسی بہو کو کوئی کیا نام دے گا؟ایسی بہو شوہر کے خاندان کو کبھی اپنا نہیں سمجھتی۔صرف خالہ،ماموں،نانی کلچر کو پرموٹ کرتی ہے۔پھوپھو،دادی،دادا اس کو ہر گز پسند نہیں ہوتے۔مرد مجبور ہو جاتا ہے۔خیر اگر آپ ایسا نہیں کرتے !بہن،بیوی اور ماں میں فرق سمجھتے ہیں۔رشتوں میں اعتدال پسند ہیں!تو آپ نہ صرف شریف النفس ہیں بل کہ اعتدال اور انصاف پسند ہیں۔کچھ خواتین اپنے اردگرد کے رشتوں سے حسد کا شکار ہو جاتی ہیں۔ہر کسی سے شکایت کرتی پھرتی ہیں۔میرے بچے عدم توجہی کا شکار ہیں۔میرے بچّوں کو یہ مسئلہ ہے۔وہ مسئلہ ہے۔
ایسا بعض خواتین غیر متعلقہ افراد سے کہتی ہیں۔وہ لوگ جن کا متاثرہ خواتین کے گھر سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا۔یوں ان کی انا کو سکون ملتا ہے۔پھر غیبت جنم لیتی ہے۔اور معاشرہ برائی در برائی کا شکار ہو کر بلآخر لوگوں کی نظر میں بُرا بن جاتا ہے۔اچھے لوگ بھی بُرے سمجھ لیے جاتے ہیں۔جو بُرائی کسی ایک رشتے میں ہوتی ہے۔ایک سے دوسرے،دوسرے سے تیسرے کے ساتھ اس بُرائی پر بات کرنے سے یہ بات معاشرے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔یوں وہ ایک رشتہ بد کم ! بدنام زیادہ ہو جاتا ہے۔جیسا کہ آج کل “پھوپھو” جیسا خوبصورت رشتہ کس قدر بدنام ہو چکا ہے۔کم عقل لوگ سوشل میڈیا پر اس معزذ رشتے پر مِیمز بناتے ہیں۔کچھ لوگ تو سوشل میڈیا پر اس معزذ رشتے کو گالیاں تک دینے سے گریز نہیں کرتے۔اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنے ماں باپ کو گالی نہ دو۔کسی کے والدین کو گالی دینا اپنے والدین کو گالی دینے کے مترادف ہے۔جیسے اس دور میں ہر کام میں پُھرتی اور تیزی آ چکی ہے۔موبائل فون پر سکرولنگ کو ہی لے لیں۔ایک سروے کے مطابق سکرولنگ کرنے والے نوجوانوں میں بے صبری زیادہ ہوتی ہے۔گویا کہ تیزی نے بے صبری کو جنم دیا ہے۔اور فاسٹ فوڈز،بازاری کھانوں نے بھی اس میں اپنا مکمل کردار ادا کیا ہے۔ہر وہ کام جس سے کوئی انسان منسلک ہو۔وہ اس کا نتیجہ فوراً چاہنے لگا ہے۔کہاں پرانے زمانے میں گھوڑے پر بیٹھے استاد سے پیدل چل کر علم سیکھنے والے لوگ۔۔۔۔اور کہاں آج ایک کلک پر پوری دنیا کا علم سامنے دیکھ لینے والے ۔۔۔ان دونوں قسم کے لوگوں میں زمین و آسمان کا فرق آ چکا ہے۔سوشل میڈیا پر بہت کم لوگ ہی دستیاب نہیں۔بقیہ ہر شخص خواہ کاروباری ہو،بے روزگار ہو،کم تنخواہ والا ہو،یا غریب ہو۔۔۔تقریباً سب ہی سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں۔طرح طرح کے لوگوں کو دیکھ دیکھ کر۔۔۔طرح طرح کے اسٹینڈرڈز دیکھ دیکھ کر۔۔۔اور سچے جھوٹے ہر قسم کے لوگوں کو دیکھتے دیکھتے بچّے جوان ہو رہے ہیں۔نہ تو بچّوں اور تمام سوشل میڈیا یوزرز کا کوئی قرآن حدیث پر کامل یقین بن پاتا ہے اور نہ ہی سستی و سہل پسندی کے مارے لوگ خود قرآن و حدیث کھول کر پڑھنے کی زحمت کرتے ہیں۔جو سوشل میڈیا پر رنگ برنگ لوگ بتا رہے ہیں۔اسی کو سب سچ مان کر بیٹھے ہیں۔یاد رہے۔۔۔بچوں اور بڑوں سب کی ذہن سازی سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے سچّے جھوٹے لوگ کر رہے ہیں۔اس لیے ہر کوئی اُداس ہے۔غمگین ہے۔بے صبرا ہے۔اور ٹریپ ہے۔ڈبل مائنڈ ہے۔ہر کوئی اُلجھا ہوا ہے۔جو لوگ اللہ کے نزدیک ہیں۔وہ ٹی۔وی،ڈراموں،رنگ برنگ پوسٹوں جیسی ہر چیز سے دور ہیں۔اسی وجہ سے انہیں اللہ کا قُرب حاصل ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ آج سوشل میڈیا ہر گھر نے اپنی ضرورت مان لیا ہے۔اس کی ضرورت ہے نہیں۔ہر گھر میں کتابیں تو ہوتی ہی ہیں۔قرآن ہوتا ہے۔تفسیر ہوتی ہے۔تو سوشل میڈیا کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟ شاید شہرت کی لالچ اور دیکھا دیکھی اسٹینڈرڈز کی وجہ سے۔میں نہ تو الیکٹرانک میڈیا کے خلاف ہوں،نہ ہی سوشل میڈیا کے خلاف ہوں۔میرے تقریباً ہر کالم میں کہیں نہ کہیں سوشل میڈیا کے مضر اثرات کا تذکرہ آ ہی جاتا ہے۔سوشل میڈیا دل و دماغ میں راسخ ہی اس قدر ہو چکا ہے۔کریں تو کیا کریں۔ڈیوائسز کے بہت سے فوائد ہیں۔رابطہ کرنا،تفریح کرنا،گھر بیٹھے دنیا کی سیر کرنا وغیرہ۔ہمیں بس ضرورت اس امر کی ہے کہ زندگیوں میں توازن قائم کریں۔سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کریں۔منفیت کی طرف دماغ کو جانے سے روکیں۔اچھا کھائیں۔اچھا پئیں۔اچھا سوچیں۔گھروں میں سکون لائیں۔پرانے زمانے میں مٹی کے گھروں میں بھی سکون ہوا کرتا تھا۔اب محلوں میں بھی سکون نہیں۔اس کی وجہ آخر ہے کیا؟ذرا سوچیے!اپنے گھروں کو شیطانی سیاست سے پاک کیجیے۔اپنے بچّوں کو وقت دیجیے۔نہ کہ فیس بُک اور انسٹا پر غیروں کو فضول وقت دیتے رہ جائیں۔اور جب آنکھ کھلے تو پانی سر کے اوپر سے گزر چکا ہو۔اپنے بچوں کی جائز خواہشات پوری کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں تو ضرور پوری کریں مگر یاد رہے غیر ضروری خواہشات ہر گز پوری نہ کریں۔اگر صرف ایک عورت ٹھیک ہو جائے تو ننانوے فیصد معاشرہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔میں نے بہت سی مائیں ایسی دیکھی ہیں جو اپنے بچّوں کو گالی کے بغیر بلاتی ہی نہیں ہیں۔تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہ بچّے جن کو ہر وقت گالی سننے کی عادت پڑ چکی ہے۔وہ کبھی گالی نہیں دیں گے؟کچھ لوگوں کے بچّے نیا نیا بولنا سیکھتے ہیں۔اگر وہ کہیں سے گالی سن لیں تو کئی لوگ ایسے ہیں۔جو اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ ہمارے بچّے نے فلاں لفظ ایسے بولا ہے۔کچھ لوگ بار بار اس لفظ کو بچّے کے سامنے ہی دہراتے ہیں۔ایسے لوگوں کو ہوش میں آنے کی ضرورت ہے۔بچّہ جب غلط بات پر اپنی تعریف سنتا ہے تو وہ اور غلط بننے کی کوشش کرتا ہے۔بچّے کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔وہ ہر بات اور ہر عمل جس کو بچّہ دیکھتا ہے۔اس کو ضرور نقل کرتا ہے۔اگر بچّے کے اردگرد لوگ باکردار ہیں تو وہ بھی یقیناً باکردار ہو گا!ورنہ نتائج حد درجہ منفیت کا شکار ہو سکتے ہیں۔جب نئے نویلے جوڑے والدین بنتے ہیں تو ان پر بہت زیادہ ذمّہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں۔ان ذمّہ داریوں کو پہچاننا ہی فرض کی پہچان ہے۔ورنہ ایک معقول سا جملہ بولا جاتا ہے!!!
“عقل نی تے موجاں ای موجاں”
گھریلو سیاستیں رشتوں کو اُجاڑ کر رکھ دیتی ہیں۔دوبارہ جُڑنے کے قابل نہیں چھوڑتیں۔اس موضوع پر جتنی گفتگو کی جائے کم است!بقیہ پھر سہی!!!