0

کھیل یا کھلواڑ

از قلم روبیہ مریم روبی

<ذرائع ابلاغ کے اس جدید دور میں عام آدمی بھی اتنی ترقّی کر چکا ہے کہ وہ لوگ جن تک اس کی رسائی پچھلے چند سالوں میں کم یا نہ ہونے کے برابر تھی۔اب انگلی کے سکرین پر ایک لمس سے ممکن ہے۔اس دور میں انسان دنیا کے دوسرے کونے میں بھی رہ کر اپنے شعبے کے لوگوں سے منسلک ہو کر بہت سے فوائد حاصل کر لیتا ہے۔اسی طرح آج کل ہر انسان فیس بُک،ٹویٹر اور دیگر ذرائع ابلاغ پر اپنی زندگی کی کتاب کھولے موجود ہے۔جس سے لوگ اس سے جان پہچان کر سکتے ہیں۔علاوہ ازیں بہت سی ادبی تنظیمیں قائم ہو چکی ہیں جو کہ نومولود مصنفین و مصنفات سے لے کر مستند و پختہ کار مصنفین کی پزیرائی کر رہی ہیں۔لکھاریوں کو بھی کسی پلیٹ فارم کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ بھی سہارا اور پزیرائی کا خواب آنکھوں میں سجائے ادبی تنظیموں سے منسلک ہو جاتے ہیں۔پاکستان میں تو تقریباً تخلیق کاروں میں ایوارڈ بانٹنے والی سب تنظیمیں رجسٹر ہیں۔اِکّا دُکّا نہ ہوں گی۔بہت سی ادبی تنظیموں کا یہ اُصول ہوتا ہے کہ ایوارڈ کے لیے اپنا نام دینے والا مصنف تقریباً اپنی کتاب کی چار کاپیاں جمع کروائے۔ایک تنظیم کے سربراہ کے لیے اور تین ججز کے لیے۔اس کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے کہ مصنف کو آن لائن سرٹیفکیٹ سے نوازنا ہے یا یہ اس قابل ہے کہ اس کو گولڈ میڈل یا ایوارڈ سے نوازا جائے۔بہت سے مصنفین اس قابل نہیں ہوتے اور بہت سے ہوتے ہیں۔ہم اس قابل ہیں یا نہیں۔یہ فیصلہ آپ خود کر لیجیے گا۔ہماری کتاب "مزاح نامے" پر درج ہے،"پاکستان کی پہلی کم عمر مزاح نگار خاتون"،ایسا ہی ہے۔رواں سال میں اسلام آباد سے شائع ہونے والی ایک ادبی و سماجی کتاب میں بھی اس کا اعتراف و تذکرہ ہے۔آخر اتنی بڑی عالمی رجسٹرڈ ادبی تنظیم کے تخت یہ کتاب شائع ہوئی ہے،ان لوگوں کی معلومات اتنی کم تو نہیں ہو گی ناں۔مجھے نامعلوم ہے کہ اتنی کم عمری میں آزاد کشمیر میں بھی کوئی خاتون طنز و مزاح کی پُرخار راہوں پر چلی ہو گی۔اگر ہے تو تحقیق کے باوجود میرے علم میں نہیں آیا۔خیر جب ایک آن لائن کسی ادبی تنظیم کا اشتہار دیکھا کہ اس سال کتب کے مقابلے میں اہلِ کتاب شامل ہو سکتے ہیں تو ہم نے بھی فیصلہ کر لیا۔ضرور اس مقابلے میں حصّہ لیں گے۔آؤ دیکھا نہ تاؤ!دو دن کے کھانے پینے کے پیسے بچا کر اس ادبی تنظیم کو اپنی چاروں کتب کورئیر کر دیں۔انتظامیہ کی جانب سے ہمیں پوری پوری یقین دہانی کروائی گئی کہ اگر آپ بوجہ تقریب میں شامل نہ ہو سکیں تو آپ کو ایوارڈ بزریعہ ڈاک بھیج دیا جائے گا۔ہم نے واقعی تقریب میں شرکت نہ کی۔اس ادبی تنظیم کی طرف سے لوگوں کو خوب خوب نوازا گیا۔ہمیں اس بات کی بہت خوشی ہوئی۔صاحبِ کتاب تخلیق کاروں کی بجائے نوجوان لکھاریوں کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی۔ہم بھی بہت اُمیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ شاید ہماری کتاب بھی کچھ اثر کر جائے۔ہماری مزید خوشی کا باعث بنے۔بہت سے ایسے لوگ جن کو ابھی لکھنا نہیں آتا۔ان کی لاٹری بھی لگ گئی۔ہمیں محسوس ہوا شاید ہماری بھی حوصلہ افزائی کی جائے۔مگر ایسا نہ ہو سکا۔کتابیں تو پیٹ کاٹ کر ہاسٹل کے دنوں میں چھپوا لیں اور صحیح جگہ پر پہنچا بھی دی گئیں مگر ہماری قسمت کہ ہم ایوارڈ نہ حاصل کر سکے۔ہماری توقعات ہمیں ہر روز دل پر ٹہوکا دے کر کہتی ہیں۔اور لوگوں کی "شادباشی"کو اپنی اندرونی تحریک محنت اور اپنے اعتماد پر ترجیح دو۔آخر ہم اتنے سالوں سے لکھ رہے ہیں۔بچپن میں بولنا بعد میں سیکھا!پہلے لکھنا شروع کیا تھا۔مگر ہمیں ہماری سوچ پر خود ہی افسوس ہونے لگا تھا کہ آخر لوگوں کی شادباشی اور ایوارڈز کی ہمیں کیوں ضرورت محسوس ہونے لگی۔اور وہ مقصد پورا بھی نہ ہو سکا۔ہم کسی کے کہے بغیر ہر مہینے "کشمیری پھول انٹرنیشنل"میگزین کی مسلسل اشاعت کر رہے ہیں۔کتاب لکھی۔صحافت میں بھی بغیر کسی بیرونی تحریک کے متحرک ہیں۔یہ سارے کام کر کے ہمیں خوشی محسوس ہوتی ہے۔اس لیے کر رہے ہیں۔بس اس بات کا افسوس ہوا کہ ریکارڈ بنانے،پیٹ کاٹنے اور علم و ادب و صحافت میں نام بنانے کے باوجود ہماری کتاب ایک ایسی تنظیم کے دل میں گھر نہ کر سکی!جو ادب کی خدمت میں مصروفِ عمل ہے۔ہمیں گِلہ نہیں کہ ہم کشمیری ہیں۔ہمارا دل و دماغ مقبوضہ کشمیر کے بہن بھائیوں سے ہونے والی زیادتیوں میں اُلجھا رہتا ہے۔رہی سہی کسر معاشرتی و سماجی سیاستیں اور مفاد پرست لوگ نکال دیتے ہیں۔کسی کا کیا گِلہ کریں گے۔بس اس حوصلہ شِکنی اور اَن دیکھے عناد کا درد دل کے پاتال سے کبھی کبھی اُٹھتا ہے۔اور پوری ہستی کو اپنی لپیٹ میں لے کر جھنجھوڑتا ہے۔کیوں؟اور دوسری طرف گجرانوالہ کی ایک رجسٹرڈ مستند ادبی تنظیم الفانوس لائبریری کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہے۔اور اس تنظیم کی ترقّی کے لیے دعا کرتا ہے۔جنہوں نے سالانہ مقابلہ کتب میں میری کتاب کو شامل کیا۔اور "مزاح نامے" کے۔ایم۔ایس قومی ایوارڈ جیت گئی۔ایک طرف نظر اندازی دیکھی تو دوسری طرف ایوارڈ کے لیے ہماری کتاب کا منتخب ہونا۔سمجھ نہیں آتا اس صورتحال کو کیا نام دیں۔خیر جو ہونا تھا سو ہو گیا۔بس یہی گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ خدا را محض نئی نئی کتب اکٹھی کرنے کے لیے مصنفین کو سبز باغ نہ دکھائیں۔لمبے انتظار میں نہ ڈالیں۔صاف گو رہیں۔جو کہیں وہ کر دکھائیں،ورنہ خاموشی بہتر است۔دنیا فانی ہے۔دنیا کا مال بھی محض دھوکہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں