0

عید الفطر اور فطرانہ

از قلم روبیہ مریم روبی

عید الفطر اور فطرانہ

عید الفطر کی آمد آمد ہے۔لوگ زور و شور سے عید کی تیاریوں میں مگن ہیں۔بڑے بزرگ بھی اپنے دوستوں اور رشتے داروں سے عید مِلن کرتے ہیں۔اور ایک دوسرے کی خوشیوں میں برابر شریک ہوتے ہیں۔نئے نئے من پسند کھانے بنائے جاتے ہیں۔شِیر خُرمہ یا سویاں صبح صبح پکا کر محلّے میں بانٹی جاتی ہیں۔پورا دن مزے مزے کے پکوان پکائے جاتے ہیں۔بچّے خصوصاً ایسے خوشی کے موقعوں پر پُرجوش ہوتے ہیں۔گاؤں اور شہروں کے بچّے عموماً ایک یا دو ہفتے قبل ہی عید کے لیے کپڑوں اور جوتوں کی خریداری کر لیتے ہیں۔چھوٹی چھوٹی بچّیاں لپ اسٹک،میک اپ کا سامان،مہندی اور چُوڑیاں لینے کی زد کرنے لگتی ہیں۔عید الفطر ایسا ہی خوشی کا موقع ہوتا ہے!جب والدین بخوشی بچّوں کی ساری چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرتے ہیں۔گاؤں،شہر،کوئی دُور افتادہ علاقہ یا دنیا کا کوئی بھی حصّہ!جہاں جہاں مسلمان موجود ہیں۔رمضان کے احتتام اور عید الفطر کی آمد سے خوش ہو جاتے ہیں۔البتہ رمضان کے جانے کا دکھ بھی اندر ہی اندر محسوس کیا جاتا ہے لیکن عید الفطر اپنے اندر ایک طمانیت لے کر آتی ہے

یہ بھی پڑھیں:  جرائم کے اعداد و شمار

 قدرت کے اس قانون کی مدد سے تبدیلیٔ وقت کا پیغام بھی ملتا ہے۔کچھ غیر مسلم لوگ بھی اس کا احترام کرتے ہیں۔ایسے لوگ جو خوشحال ہیں۔اُن کو رمضان المبارک میں تو غریب و نادار لوگوں کا خیال رکھنا ہی چاہیے،بل کہ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ غریب لوگوں کو بھی خوشی کے اس موقع پر یاد رکھیں۔یہ بھی اللہ کی مخلوق ہے۔جیسے ایک عام آدمی کے دل میں جذبات و احساسات ہیں۔اسی طرح یہ لوگ بھی اپنے اندر جذبات رکھتے ہیں۔کچھ لوگ مفلس و نادار ہونے کے باوجود سفید پوش ہوتے ہیں۔ایسے لوگوں کے احساسات کا احترام کرنا معاشرے کے باعزّت اور دولت مند لوگوں پر فرض ہے۔اس طرح نہ صرف دولت گردش میں رہتی ہے!بل کہ لوگوں کی معاشی ضروریات بھی پوری ہو جاتی ہیں۔مسلمانوں پر فرض ہے کہ رمضان المبارک کے احتتام پر فطرانہ مستحق لوگوں میں بانٹ دیں۔یاد رکھیں!کچھ لوگ فطرانے کے منتظر ہوتے ہیں کہ تب ہی گھر کے لیے راشن خرید سکیں گے۔بہتر یہ ہے کہ آخری روزے کا سورج غروب ہوتے ہی مفلس اور مستحق لوگوں کو فطرانہ ادا کر دیا جائے۔اس طرح مساکین لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو جاتے ہیں۔فطرانہ بھی اللہ کی بارگاہ میں قبول و منظور ہو گا۔فطرانہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مساکین کے لیے خاص تحفہ ہے۔جو کہ کسی بھی صورت معاف نہیں ہو سکتا۔ہر وہ شخص جس پر فطرانہ واجب ہے!چاہے وہ چاند رات کو مر جائے تب بھی اہلِ خانہ کو اس کا فطرانہ ادا کرنا پڑے گا۔نومولود بچّوں کا بھی اسی طرح فطرانہ ادا کیا جاتا ہے۔یہاں تک کہ جو بچّہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔اگر والدین اس بچّے کا صدقہ فطرانے کی صورت میں ادا کرنا چاہیں تو ضرور کریں۔اگر کوئی عید کی نماز پڑھنے کے بعد فطرانہ ادا کرتا ہے تو اس فطرانے کی حیثیت صدقے کی سی ہے۔رمضان المبارک کا مہینہ تو مسلمانوں کو وقت اور اسلامی قوانین کا پابند کرنے ہی آتا ہے۔اس لیےاسلامی قوانین میں وقت کی پابندی لازم و ملزوم ہے!کیوں کہ ہم رمضان المبارک کے پورے بابرکت و مقدّس مہینے میں سحری وقت پر کرتے ہیں۔نمازیں وقت پر پڑھتے ہیں۔افطاری وقت پر کرتے ہیں۔اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے دیگر احکامات پر عمل پیرا ہونے میں بھی وقت کی پابندی کو لازم سمجھیں۔فطرانہ،صدقہ و زکٰوۃ ادا کرنے کے بہت سے فوائد ہوتے ہیں۔دلی خوشی محسوس ہوتی ہے۔انسان کا نفس پاک ہو جاتا ہے۔انسانیت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔اور لوگوں سے ہمدردی بڑھتی ہے۔درحقیقت یہی مقصدِ حیات ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

2 تبصرے ”عید الفطر اور فطرانہ

اپنا تبصرہ بھیجیں