از قلم روبیہ مریم روبی
کشمیری معیشت پر ایک اور وَار
آزاد کشمیر وہ خطۂ ارضی ہے جو بھارت سے آزاد ہو کر پاکستان کے حصے میں آ گیا۔

یہ درست ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے ہوتے آزاد کشمیر نے لا تعداد مصائب و مشکلات کا سامنا کیا، مگر اب آزاد کشمیر کی مشکلات میں بے حد اضافہ کر دیا گیا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی شٹ ڈاؤن کے باعث کشمیر کی خود مختار حیثیت کو ختم کرنے لئے ڈیرھ بلین ڈالر کا نقصان کیا گیا ۔ اب باری ہے آزاد کشمیر کی۔ آزاد کشمیر کی خُود مختاری پر بھی وار کیا گیا ہے۔ ایک ہفتہ پہلے پورے آزاد کشمیر میں ایک گاڑی گھومتی رہی۔ جو پورے کشمیر کے کریش اسٹونز یعنی اسٹون مِلز کے مالکان کے پاس گئے اور زبانی کلامی سپریم کورٹ کا فیصلہ سنا کر اسٹون مِلوں کو بند کروا دیا۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ پورے کشمیر کی اسٹون ملیں پورے ایک ماہ بند رہیں گی۔ انہوں نے سپریم کورٹ کا جاری کردہ کوئی نوٹیفکیشن نہیں دکھایا۔
اچنبھے کی بات تو یہ ہے کہ وجہ بھی نہیں بتائی۔ سرِ عام سڑکوں پر آقا بن کر گھومتے پھرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا اگر یہ فیصلہ ہے تو نوٹیفکیشن جاری کرے لوگوں کو کریش اسٹونز بند کروائے جانے کی وجوہات سے آگاہ کرے۔ میڈیا کوریج کرے تاکہ پوری دنیا کو پتہ چلے کہ آزاد کشمیر کی معیشت کے ساتھ کس طرح کھیلا جا رہا ہے۔ نا صرف یہ بلکہ آزاد کشمیر کی خود مختاری کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ کشمیری اسکولوں،کالجوں،یونیورسٹیوں اور ہاسٹلوں کی فیسیں کہاں سے ادا کریں۔ اُدھر بھارت سر پر تلوار لٹکائے کھڑا ہے اور اِدھر کشمیری معیشت کے قاتل۔ حیرانی ہوتی ہے کہ اگر کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ جاتا ہے تو میڈیا کے نمائندے بھاگتے دوڑتے وہاں جا پہنچتے ہیں۔ کشمیری معیشت کے خاتمے کی کوشش پر اتنی گہری خاموشی کیوں؟ آزاد کشمیر کو دن بدن مسائل میں گھیرا جا رہا ہے۔ متعلقہ محکموں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔جب ایک کریش اسٹون مِل بند ہوتی ہے۔ سو دیہاڑی دار مزدور بے روزگار ہوتے ہیں پانچ سو ٹریکٹر والا مزدور پریشان اور بے روز گار ہوتا ہے۔تین سو ٹرک والے بے روزگار ہوتے ہیں۔یوں بھوک اور افلاس آن ڈیرے جماتی ہے کشمیر میں بھوک اور افلاس آ چکی ہے۔ رہی سہی کسر لوڈ شیڈنگ نکال دیتی ہے کشمیریوں کو ہر طرف سے زدو کوب کیا جا رہا ہے۔بجرِی ایک ایسی چیز ہے جو چھت اور مکان کی ضرورت ہوتی ہے۔جب بجرِی ہی نہیں بنے گی۔سیمنٹ نہیں بِکے گا۔سرِیا نہیں بِکے گا۔ریت کو کوئی نہیں پوچھے گا۔اینٹ نہیں بِکے گی۔یوں معیشت کی زنجِیر ٹوٹ جائے گی۔ ٹوٹی ہوئی زنجیر کسی کے کام نہیں آتی
یہ بھی پڑھیں: لوٹ مار اور چوری ڈکیتی کے واقعات
آزاد کشمیر میں پورا مہینہ کریش اسٹونز کو بند رکھا جانا کشمیری عوام، طلبہ و طالبات اور غریب کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی ہے۔ ہم نے اسکولوں کی فیسیں ادا کرنی ہوتی ہیں یونیورسٹیوں کی فیسیں ادا کرنی ہوتی ہیں۔ بجلی کی عدم موجودگی میں ڈینگی کے کِیے گئے واروں کے لیے دوائیاں لینی ہوتی ہیں۔ بچوں کو کتابیں لے کر دینی ہوتی ہیں۔اس مہنگائی کے دور میں دو وقت کی روٹی سے پیٹ بھی بھرنا ہوتا ہے۔ زمینی آقا دندناتے آتے ہیں۔اور کوئی بھی حکم صادر کر کے چلے جاتے ہیں۔ان کی بات نہ مانی جائے تو بھاری بھرکم جرمانے لیتے ہیں۔اتنی آمدن نہیں ہوتی جتنے جرمانے لے لیتے ہیں۔یہ کام تو پہلے ہی واپڈا بخوبی سر انجام دے رہا یے۔ ہم آزاد کشمیر میں رہنے والے باشندے مسائل میں ضرور گھِرے ہوئے ہیں مگر غلام نہیں ہیں ۔مقبوضہ کشمیر پر ہونے والے ظلم و ستم پر پاکستان اور دیگر ممالک کی گہری چُپ تو قابل اعتراض ہے ہی۔آزاد کشمیر کے لوگوں کی سانس کیوں بند کی جا رہی ہے؟؟؟سپریم کورٹ سے اپیل ہے کہ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔آزاد کشمیر کی معیشت کا قتل دراصل کشمیریوں کے غیض و غضب کو سرِ عام دعوت ہے۔سڑکوں پر نکلنے اور احتجاج کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔آزاد کشمیر میں اس حوالے سے امن ہے۔امن کو قائم و دائم رکھنے میں کشمیریوں کی مدد کی جائے۔کشمیری عوام سڑکیں بلاک کرنے،اشتعال انگیزی پھیلانے اور ملک کا امن و امان تباہ کرنے کے حق میں ہر گز نہیں۔کریش اسٹون کے مالکان کوئی امیر کبیر طبقہ نہیں ہے۔ایک عام دیہاڑی دار مزدور طبقہ ہی ہے ۔نامعلوم ہے مزدور طبقے کے ساتھ اتنی زیادتی کیوں؟؟؟؟؟