از قلم روبیہ مریم روبی
سیلاب عذاب یا آزمائش
پاکستان میں تقریبا ہر سال ہی بارشیں ہوتی ہیں۔مگر رواں سال حد سے زیادہ بارشیں ہوئیں۔پاکستان کے کچھ علاقے زیرِ آب ہی نہیں آئے بلکہ صفحۂ ہستی سے ہی مٹ گئے۔ تقریباً تین ماہ قبل پاکستان میں سیلابی ریلا خیبر پختونخوا، کشمیر،سندھ، پنجاب کے جنوبی حصے، بلوچستان اور گلگت بلتستان میں پوری آب و تاب سے تباہی مچاتا ہوا داخل ہوا۔یہ پانی تقریبا چودہ سو لوگوں کو موت کی گھاٹ اتار چکا ہے ۔زخمی لوگوں کا کوئی شمار نہیں۔ جون میں پاکستان میں بارشیں بے انتہاء برسی ہیں۔ رہی سہی کسر گلیشیر کے پگھلنے سے نکل گئی۔ یہ سیلاب پانچ سال قبل آنے والے سیلابی ریلے سے بھی زیادہ خطرناک اور مہلک ثابت ہوا۔یہ سچ ہےکہ زمینی آفات ایک طرح سے عذابِ الہیٰ کی شکل ہوتی ہیں مگر صاف ظاہر ہے کہ یہ عذابِ الہیٰ نہیں بلکہ حکومتی نااہلی کا ثبوت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گول مال!
عذابِ الہیٰ ہوتا تو وزیروں مشیروں اور وڈیروں کے بنگلے ڈوبتے۔غریب لوگ تو اللہ کے قریب ہوتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم دعا فرمایا کرتے تھے کہ:”یا اللہ مجھے قیامت کے روز غریبوں مسکینوں کے ساتھ رکھنا۔”اس لیے ایک طبقہ جو غریب لوگوں کو اس آفت کے دور میں مزید انڈر ایسی میٹ اور ڈیگریڈ کر رہا ہے،وہ ذرا ہوش کے ناخن لے۔حکومتی نااہلی کو حکومتی نااہلی ہی کہا جائے تو بہتر ہے۔اگر ہم وڈیروں کی نااہلیاں چھپائیں گے۔مظلوم کو ظلم کی چکی میں پسنے دیں گے۔حق پر آواز نہیں اٹھائیں گے۔تو ہمارا شمار بھی ان لوگوں میں ہو گا۔جو برائی کو جاری دیکھنا چاہتے ہیں۔جو ان لوگوں کی مدد نہیں کرنا چاہتے جو مظلوم اور بے بس ہیں۔سورت النسا کی آیت پچھتر میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:”اور تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں اور ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے ۔جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب!ہمیں اس بستی سے نکال لے جس کے رہنے والے ظالم ہیں۔اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے۔اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی مددگار بنا۔”کیا ہم اللہ کے بندے نہیں؟کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم متاثر انسانوں کی آواز بن سکیں۔ان کے لیے آواز بلند کر سکیں۔کم از کم ایمان کے اس درجے پر تو آ جائیں۔کیا ان لوگوں کی مدد کرنے باہر سے لوگ آئیں گے؟یا ہم تماشا دیکھتے رہیں گے؟کہیں ایسا نہ ہو اپنے بندوں کی مدد کے لیے اللہ نئے لوگوں کو لے آئے۔اور ہم اپنی شرم،جھوٹی شرافت،بغض اور کینہ دل میں دبائے ہی پکڑے جائیں۔اگر ہم سب مل کر برے کو برا کہنا شروع کر دیں تو کم از کم کچھ تو برائی کا زور ٹوٹے گا۔معاشرے میں ان غریبوں اور متاثرہ لوگوں کی مدد کرنے والے بھی بہت سے لوگ موجود ہیں۔ایسا نہیں کہ ان لوگوں کو پوچھنے والا ہی کوئی نہیں۔مگر جو لوگ مدد کرنے والے اللہ کے بندے ہیں۔وہ سفید پوش ہیں۔اس صورت میں ایک اور حرکتِ بد سامنے آئی کہ جو لوگ انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔موقع پرستوں نے ان کے امدادی سامان پر اپنے لوگَو چِپکانے شروع کر دیے۔ایک طرف عبرت کا مقام ہے تو دوسری طرف توبہ کا۔اس سیلابی ریلے سے تینتیس ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں۔جن میں بچے بوڑھے جوان نومولود ہر عمر اور طبقے کے لوگ شامل ہیں۔پاکستان کا 809k ایریا متاثر ہو چکا ہے۔لوگ پائی پائی کو ترس گئے۔آگے سردیاں آ رہی ہیں۔لوگوں کے پاس مکان نہیں۔372,823 گھر تباہ و برباد ہو گئے۔سمجھ نہیں آتی یہ لوگ سردیوں میں کیا کریں گے۔ان کو کون سا اللہ کا بندہ چھت دے گا۔یہ لوگ تو خدا کے آسرے پر بے چارے دن رات دعائیں کر رہے ہیں کہ اے اللہ کوئی اپنی مدد بھیج۔ڈاکٹر امجد ثاقب جو پاکستان میں غربت کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں،نے ان خوددار لوگوں کی تعریف یوں کی ہے کہ ان متاثرہ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں قرض دے دیں۔ادھار دے دیں۔تاکہ سردیوں تک ہم اپنے گھر بنا سکیں۔اور ہم یہ پیسے واپس کریں گے۔تاکہ کل کسی اور ضرورت مند کا گھر بن سکے۔اس غربت اور بےبسی کے عالم میں بھی ان لوگوں کی ایمانی حالت کا اندازہ تو لگائیے۔حکومت ہر روز مہنگائی کرتی جا رہی ہے۔کھاتے پیتے لوگ بھی غربت کو رو رہے ہیں۔کچھ کو سیلاب نے ڈبو دیا۔رہی سہی کسر حکومت نکال رہی ہے۔اب تو متوسط گھرانوں میں بھی بھوک افلاس نے قدم جما لیے ہیں۔ایک وقت کی روٹی کھا لیں تو جیب خالی ہو جاتی ہے۔ڈاکٹر امجد ثاقب اس وقت ان لوگوں کے لیے پورے پاکستان سے اپیل کر رہے ہیں کہ ان لوگوں کو اتنی رقم فراہم کی جائے کہ وہ لوگ دو دو ایک ایک کمرہ بنا سکیں۔محیر حضرات اس مشکل دور میں خدمتِ خلق میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ان لوگوں کو بھی اس کارِ خیر میں حصہ لینے کی ضرورت ہے جو کم از کم اپنے گھر کی چھت تلے دو وقت کا سہی،کھانا تو کھا رہے ہیں۔ہم سب کو اس مشکل دور میں اپنے سیلاب سے متاثرہ بہن بھائیوں کے دکھ میں برابر شریک ہونا چاہیے۔اگر آپ کے پاس پیسے نہیں تو راشن کا کچھ حصہ دے دیں۔ راشن نہیں تو استعمال شدہ ہی سہی،کپڑے دے دیں۔کون سا گھر ہے؟ جس میں ڈبل ٹرپل برتن موجود نہیں اور کچھ نہیں تو برتن دے دیں۔لیکن خدارا کچھ نہ کچھ اپنے بہن بھائیوں کو ضرور دیں۔ ایثار و اخوت کا مظاہرہ کریں۔ذرا سوچیے!جس کا پورا گھر پانی میں بہہ گیا اس کو کس کس چیز کی ضرورت نہ ہو گی۔اگر آپ کے پاس سپرائیٹ،پیپسی،کوک کی خالی بوتلیں ہیں،وہ ہی اپنے بہن بھائیوں کو دے دیں۔ان کو چھوٹی چھوٹی چیزوں کی ضرورت ہے۔کچھ نہیں دے سکتے تو دعا دے دیں۔اس مصیبت کے دور میں اپنے افعال سے اللہ کی بھیجی آزمائش پر پورا اتریں۔دنیا امتحان گاہ ہی تو ہے۔اللہ تعالیٰ جان،مال بھوک اور افلاس سے آزما ہی تو رہا ہے!!!!
”سیلاب عذاب یا آزمائش“ ایک تبصرہ