0

دینی مدرسہ یا جلادوں کا مسکن۔

دینی مدرسہ یا جلادوں کا مسکن۔

کراچی شہر قأٸد میں جہاں اسٹریٹ کراٸم ،ٹارگیٹ کلنگ اور پولیس گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات روز کا معمول بن گٸے ہے وہی پر بچوں کی تعلیمی درسگاہیں بھی ظلم و بربریت کی نٸی داستانیں رقم کرنے لگی ہیں ۔

ڈسٹرکٹ کورنگی میں واقع کورنگی نورانی مسجد کا قاری عبید جلاد بن گیا سبق یاد نا کرنے پر کمسن طالبعلم کو پیشہ ور ملزم کی طرح تھرڈ ڈگری ٹارچر کیا گیا۔ بچے کے والد نے متعلقہ تھانے زمان ٹاون تھانہ میں شکایت درج کروانی چاہی مگر پولیس نے روایتی طریقہ اپناتے ہوئے شکایت کا اندراج کرنے سے گریزاں ۔ ٹھیلے پتھاروں سے یومیہ اجرت وصول کرنے میں مصروف عمل ۔ اہم ذرائع سے حاصل ہونے والی تفصیلات کے مطابق پولیس اسٹیشن زمان ٹاون کی حدو میں واقع جامع مسجد نورانی سیکٹر 50/B کورنگی نمبر 51/2 سوکواٹر میں چلنے والا مدرسہ تحفظ القران بچوں کے لئے ٹارچر سیل بن گیا۔ گزشتہ روز مدرسے کے ناظم قاری عبید نے ناظرہ کلاس کے بچے عبدالوہاب ولد امجد کمال کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اس بدترین تشدد کے باعث

معّصوم بچے کے کولہے کا گوشت پھاڑ دیا ۔ درخواست گزار کمسن عبدلوہاب کہ والد امجد کمال نے بتایا کہ میرا بیٹا مدرسہ میں زیر تعلیم ہے اور ہفتہ میں ایک دن گھر آتا ہے ہم اپنے بچے کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں نہیں معلوم تھا کہ مدرسہ میں اس طرح کہ جلاد صفت استاتذہ کرام بھرتی کئے ہوٸے ہیں جو کہ اس طرح کے پرتشدد رویہ کے حامل ہیں ایسے جلاد صفت انسان بچوں کی تعلیم و تربیت کس طرز کی کرتے ہونگے یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔

یہ بھی پڑھیں: منشیات کی منڈی

اپنے بیٹے پر یونے والے اس بہمانہ تشدد کہ خلاف میں تھانہ زمان ٹاون میں شکایت کے لیے گیا مگر پولیس ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے دوسری جانب تشدد کا شکار بچے عبدلوہاب نے مزید انکشاف کرتے ہوٸے بتایا کہ اس کہ ساتھی طلبعلم آصف کو بھی قاری صاحب نے بیہمانہ طریقہ سے تشدد کا نشانہ بنا یا تھا جس سے اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گٸی تھی اور دیگر ایک بچے کا بازو بھی ٹوٹ چکا ہے جس کہ بعد بچوں نے مدرسہ آنا چھوڑ دیا اور اب میں بھی دوبارہ اس مدرسے میں کبھی نہیں جاونگا۔ بچوں پر شدد کے متعدد شکایات کہ باوجود مدرسہ کی انتظامیہ نے کسی قسم کا کوٸی ایکشن نہیں لیا ۔ اور متعلقہ پولیس بھی ملزم کہ خلاف کسی بھی طرح کی کارروائی کرنے سے گریزاں نظر آرہی ہے۔ لہزا ہماری قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اپیل ہے کہ اس طرح سے کمسن بچوں پر تشدد کرنے والے قاری عبید کہ خلاف سخت سے سخت قانونی کاروائی عمل میں لاٸی جاٸے تاکہ دوبارہ کسی بچے کے ساتھ اس طرح کا سفاکانہ عمل کی روک تھام کو یقینی بنایا جاسکے۔

واضع رہے اکثر مدرسہ میں معصوم بچوں پر بری طرح تشدد کے کئی واقعات سامنے آئے تاہم مدرسہ یا علاقہ مکینوں نے مذہبی معاملہ سمجھ کر والدین کو چپ رہنے پر مجبور کر دیا جبکہ کئی واقعات میں پولیس نے بھی شکایات کنندگان کی کوئی سنوائی نا کی جس کے باعث والدین حصول انصاف کے لئے در بدری کا شکار ہو کر رہے گئے۔

مدرسوں میں بچوں پر جسمانی تشدد کے خلاف بھی قانون بنانا چاہئے تاکہ بچے اور والدین بلا خوف و خطر مذہبی و دینی تعلیم کے بہترین مواقع حاصل کر سکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں