0

صراط مستقیم

مہنگائی, بے روزگاری اور نفسا نفسی کے اس دور کا سب سے مشکل راستہ صراط مستقیم یعنی سیدھا راستہ نیک اور صالح لوگوں کا راستہ اور احکام خداوندی پر چلنے کا راستہ ہے جو کے اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا پسندیدہ راستہ ہے
مگر افسوس کہ اس جدید دور میں ہم دنیاوی آسائشوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے اوپر احسان تصور کرتے ہوئے اپنے اعمال کو درست گمان کرتے ہیں بغیر اس تحقیق کے کہ جس راستے پر چلتے ہوئے انہیں یہ ساری نعمتیں نصیب ہورہی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتنا محبوب ہے
صراط مستقیم کی عملی مثال آپ کی خدمت میں پیش کرنے سے پہلے میں آپ تمام اہل علم اور ادب سے معذرت خواہ ہوں اگر میری اس بات سے کسی کی دل

یہ بھی پڑھیں۔۔ عدم برداشت کا کھیل۔

آذاری ہو تومیں پیشگی معذرت کا طالب ہوں کیونکہ حقیقی دلیل ہے کہ حق اور سچ کاراستہ کتنا کٹھن اور دشوار ہے
یہ علاقہ جہاں میں رہائش پذیر ہوں آج سے تقریباً دس سال پہلے یہاں آبادکاری کا سلسلہ شروع ہوا یہ کراچی شہر کا ایک مضافاتی علاقہ ہے میں نے بھی کچا پکا سا مکان تیار کرالیا اس وقت بمشکل یہاں 50 سے 60 گھر آباد ہوں گے اور زیادہ تر آبادی میری طرح تعلیم سے محروم تھی اس وقت تک یہاں الحمدللہ 4 مسالک کی مساجد اور مدارس قائم ہوچکے تھے میں نے بھی اپنے بچوں کو ایک مدرسے میں داخل کروادیا کچھ دنوں بعد دوسرے مدرسے میں بچوں کو عید کے تحائف اور عیدی تقسیم کی گئی تو میں نے بھی موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنے بچوں کی خوشی اور تحائف کی لالچ میں اپنے آباؤ اجداد کا مسلک تبدیل کرتے ہوئے انہیں فوراً اس مدرسے میں داخل کروا دیا

جس میں بچوں کو اور ان کے والدین کو پرکشش مراعات دستیاب تھیں کیونکہ کبھی کبھی مولانا کی طرف سے تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے گھروں پر بیف بریانی بھی بھیجی جاتی تھی اور ہم غریب بھی اچھے کھانے سے لطف اندوز ہو جایا کرتے تھے
آہستہ آہستہ مہنگائی بڑھتی گئی اور گذر اوقات مشکل ہوتا گیا مزدوری کبھی ہوتی اور کبھی نہیں قرض داروں میں اضافہ ہوتا گیا انتہائی مشکل حالات سے گزر رہا تھا کہ اچانک ایک روشنی کی کرن نظر آئی میرے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر میرے ایک دوست کا پلاٹ تھا وہ ایک سرکاری اسکول کا چوکیدار تھا اور حال ہی میں ریٹائرڈ ہوا تھا اس کے پلاٹ پر چار دیواری لگی ہوئی تھی اور میں نے ہی اس پلاٹ پر مزدوری کی جس کی وجہ سے اس سے واقفیت ہو گئی تھی مزدوری کرتے ہوئے وہ مجھے اکثر بابا جی کہ کر مخاطب کرتا تھا کیونکہ میرے سر پر ہمیشہ ٹوپی ہوتی تھی اور مسجد سے ہمیشہ دوری , چہرے پر سنت اس طرح کی کے دیکھنے والے کسی مسجد کا پیش امام سمجھیں مگر دین سے مکمل لاعلمی تھی اس شخص نےمجھے بتایا کہ وہ اس پلاٹ پر مدرسہ تعمیر کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کام میں میں اس کا ساتھ دوں مجھے یہ سن کر بڑی حیرانی ہوئی کہ میں تو خود کبھی مدرسے نہیں گیا بھلا میں اس کا کیا ساتھ دے سکتا ہوں اس نے کہا کہ تم اس علاقے سے واقف ہو اور اس کام میں میری معاونت بھی کرسکتے ہو اور مجھے دوبارہ اپنے باپ دادا کے مسلک یعنی جو میں نے اپنے بچوں کو میسر آسائشوں کی وجہ سے بالائے طاق رکھ دیا تھا اس کی طرف میرا دیہان مبذول کروایا اور مجھے بالآخر راضی کرلیا کہ میں اپنے باپ دادا کے مسلک کی کی خدمت کروں میں بھی بے روزگار تھا کوئی کام دھندہ نا تھا اور اگر سچ بولوں تو محنت مشقت سے بیزار تھا چنانچہ اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا اگلے ہی روز پلاٹ کی دیواروں کو چونا لگا دیا گیا اور اس پر پینٹر کی مدد سے مدرسے کا نام تحریر کردیا گیا اب مرحلہ اس مدرسے کو چلانے کے لیے مسئلہ رقم اور ایک مناسب استاد کا تھا جس کے لیے ہم نے باقاعدہ چندہ جمع کرنے کی مہم کا آغاز کر دیا مگر پسماندہ علاقہ ہونے کی وجہ سے چندے کی مد میں مناسب رقم حاصل کرنا ناممکن تھا علاقے میں چند صاحب حیثیت لوگوں کی مدد سے بمشکل مدرسے کو اس قابل کیا گیا کہ بچوں کو بٹھانے کا بندوبست ہوسکے اور نزدیکی علاقے میں موجود ہم مسلک جامع مسجد سے ایک استاد کا بھی انتظام کیا گیا جو بچوں کو پڑھا سکے تقریباً ایک سال انہی کوششوں میں مصروف رہا مگر انتہائی پرہشانی کے ساتھ تمام انتظامات چلتے رہے چندے کی رقم کے حصول کے لیے ناجانے پیدل چل کر کتنی چپلیں توڑیں مگر آہستہ آہستہ میں ضرور علاقے میں بابا جی کے نام سے مشہور ہوگیا سادہ لوح لوگ مجھے دیکھ کر دم کرانے کھڑے ہوجاتے مرتا کیا نا کرتا ان پر خالی پھونکیں ماردیا کرتا اور وہ خوش ہوجاتے فارغ اوقات میں اکثر مدرسے میں ہی بیٹھ جاتا تھا پھر آہستہ آہستہ لوگوں نے مدرسے میں بھی آنا شروع کردیا اور میں بھی اللہ کا نام لیکر خالی پھونکوں سے ان کو خوش کردیا کرتا مدرسے کے بیرونی حصے کے ساتھ ساتھ اندرونی حصے میں بھی ایک چندے کی پیٹی لگا دی گئی اور کچھ دنوں بعد باہر والی پیٹی جو 24 گھنٹے باہر ہوتی اس کی نسبت اندر والی پیٹی جس کے پاس صرف 2 گھنٹے میں بیٹھتا وہ زیادہ رقم جمع کرلیتی نذرانوں کا سلسلہ بڑھتا رہا لوگوں کے مسائل پھونکوں سے حل ہوتے رہے دو سال کے اندر اندر میں نے اپنا مکان جس کے درودیوار بھی کانٹوں کی مدد سے بنائے گئے تھے انہیں ایک عالیشان مکان میں تبدیل کرالیا مدرسے کی عمارت بھی اب پہلے جیسی نا رہی بچوں کے بیٹھنے کا معقول انتظام بھی کردیا گیا چھت بھی ڈال دی گئی پنکھے بھی لگ گئے ہر ہفتے آستانے پر لنگر کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے, ٹچ موبائل, موٹر سائیکل اور گھر والوں کی آمدورفت کے لیے ہیوی ساؤنڈ سسٹم والا رکشہ بھی لیا ہوا ہے جو جیسے ہی علاقے میں داخل ہوتا ہے تو اہل علاقہ مرشد کی قوالیوں والی آواز سے با احترام اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں
ساری زندگی بھی مزدوری کرکے میں کبھی اتنی ترقی اور خوشحالی حاصل نہیں کر سکتا تھا جو آج میں نے حاصل کی ہوئی ہے میرے نام کے ساتھ اتنے سلسلے جڑ گئے کہ میں خود بھی یاد نہیں رکھ پاتا بس دور ہوئے تو وہ صاحب حیثیت لوگ جنہوں نے مدرسے کے قیام کے وقت میرے ساتھ تعاون کیا تھا میں ان تمام نعمتوں پر اپنے رب کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے
مگر کیا یہ صراط مستقیم ہے یا پھر وہی رستہ جسے میں اچھا جان کر اپنے رب کی نعمتوں کا شکر گزار ہوں میں صحیح رستے پر ہوں یا وہ لوگ جنہوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

3 تبصرے ”صراط مستقیم

اپنا تبصرہ بھیجیں