0

گول مال!

گول مال!

🕊️ تحریر: فرح خیال

گول مال

ہم پاکستانیوں نے بھی عجیب قسمت پائی ہے۔۔ترقی کے نام پر گول ،گول اک دائرے میں ہی 75 سال سے گھوم رہے ہیں۔۔
اللہ جانے یہ ترقی کی کون سی قسم ہے۔۔
جس میں بس 75 خاندانوں کے لیے ہی عوام کولہو کے بیل کی طرح اپنا تیل نکال کر پسینے اور لہو کے ساتھ طبقہء اشرفیہ کے لیے گول گول گھوم رہی ہے۔۔۔حقوق کا تو سوال ہی کیا ادھر ۔۔ابھی تو بس فرائض ہی مسلط ہیں۔۔
اللہ جانے یہ کون سے ناکردہ گناہ کی سزا ہے جو جرم ناکردہ کی پاداش میں عوام سال ہا سال سے بھگتی آئی ہے اور مذید بھگتے گی۔۔
پارٹی کوئی بھی ہو حکومت میں جا کر عوام کے لیے بھاشن اور خود اپنے اپنوں کے لیے راشن کا انتظام کرتیں ہیں ادھر۔۔

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ اپوزیشن میں ہوتے وقت یہ پارٹیاں عوام کے حقوق کے راگنی چھیڑے رکھتی ہیں اور وہ وہ قوالیاں گاتی ہیں کہ سوچ ہے ۔۔عوام ان کی لے پر مست و بے خود وجد میں آکے ان کی ہمنوا ہو جاتی ہے تو کہیں کچھ گورکھ دھندوں سے یہ پارٹیاں حکومت میں آ جاتی ہیں اور حکومت میں آتے ہی ان کے پر نکل آتے ہیں اور پھر سے وہی خزانہ خالی ہے کا راگ شروع ہو جاتا ہے۔۔
یہ خزانہ عوام پر ٹیکس لگا کر ہی کیوں بھرا جاتا ہے ۔۔
یہ جو اتنے سارے اقتصادی ماہرین ہیں ان کا دماغ صرف ٹیکس کے لیے ہی کیوں چلتا ہے۔۔یہ دیانت داری سے ایسے منصوبے کیوں نہیں بناتے کہ پاکستان اک فلاحی ریاست بن سکے جہاں ہر بوجھ صرف عوام پر ہی نہ ڈالا جا سکے۔۔حکومت خود اپنے اوون پر بھی کوئی کمائی کر سکے۔۔
کیا پاکستان میں کوئی عقل والا کوئی اقتصادی مسیحا نہیں۔۔جو دم توڑتی معیشت کے لیے کچھ سوچ سکے کچھ کر سکے۔۔
اور عوام بھی اب حکومتی ماہرین معیشت کی طرح شاہ دولے کے چوہے ہو چلے ہیں۔۔
جس کاجس پر زور چلتا ہے اس کا لہو نچوڑنا شروع کر دیتا ہے ایسا حیران کن منظر میں نے دیکھا کہ پیٹرول کی قیمت بڑھتے ہی کل رات کو بسکٹ کا ٹیکی پیک جو میں نے رات 10روپیہ کا لیا تھا آج صبح 15روپیہ کا ملا پوچھا کہ اس پر تو 10 روپیہ قیمت درج ہے رات بھی 10 کا لیا تھا
تو دکان دار بولا میڈم رات پیٹرول کی قیمت بڑھ گئی ہے

آپ کو کیا پتا نہیں۔۔۔

یہ بھی پڑھیں۔ اپنی طاقت پہچانیں۔

یعنی جس کا جہاں جہاں داؤ لگے گا۔۔وہ بھی عوام کا لہو نچوڑے گا۔۔ایک دم ہر چیز پر یک دم 10,50,100,500یا1000 بڑھا دئیے جاتے ہیں وہ بھی راتوں رات۔۔
یہ بھی گول مال ہے جو عوام ،عوام سے ہی مختلف مد میں پیٹرول کی قیمت بڑھنے کے نام پر بٹور رہے ہیں
اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ رکھ کر حکومت اپنے ان کرپشنی بھائیوں کی جانب سے آنکھیں بند کر کے بیٹھی ہے
جیسی روح۔۔ ویسے فرشتے
جیسی عوام۔۔۔ویسے حکمران
جس کا جس پر زور چل رہا ہے۔۔وہ ٹیکس،لیوی نام کا عذاب دوسرے کے سر رکھ رہا ہے۔۔
اور
وہ بیچارہ مجھ جیسا کیا کرے جس کا کسی پر بھی زور نہیں چلتا,(…

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

5 تبصرے ”گول مال!

اپنا تبصرہ بھیجیں