عالمی وباء کے بعد سے کرہ ارض میں موجود تیسرے درجے کے ممالک کو شدید نقصان ہوا وہیں ترقی یافتہ ممالک بھی بُری طرح متاثر ہوئے 2019 سے پھیلنے والی عالمی وباء کے باعث ترقی پذیر ممالک کو بھی چار و ناچار ایسے اقدامات کرنے پڑے جس سے نا صرف ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی اور مہنگائی بھی آسمان پر پہنچ گئی جس کے باعث بیروزگاری کا ایسا سیلاب امنڈ آیا جس سے تاحال نبرد آزما ہیں۔ جس کا سب سے زیادہ دھچکا ترقی پذیر ممالک کو پہنچا جنہوں نے چار و نا چار ایسے سخت اقدامات کرنے پڑے جس کا براہ راست اثر مُلکی عوام کو ہوا جس کے باعث کاروبار زندگی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ عوام میں بلڈ پریشر و دیگر امراض بڑھنے کے علاؤہ برداشت کی قوت بھی تقریبآ ختم ہو کر رہ گئی۔ مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں پسی لاچار عوام نے اپنا غصّہ یا تو اپنے اہلخانہ پر نکالنا شروع کر دیا یا پھر ذرا سی بات پر جلاوّ گھیراوّ اور توڑ پھوڑ سے اپنے جذبات کی تسکین حاصل کرتے رہے۔ اگر بات صرف یہیں تک رہتی تو شائد کسی حد تک قابل قبول تھی مگر جذبات کا لاوا اس قدر جوالا مکھی بن گیا کہ عوام نے بے دریغ قانون کی رٹ کو چلینج کرتے ہوئے اپنی عدالت لگانا شروع کر دی۔ کسی بھی شخص کو توہین رسالت یا چور، ڈآکو قرار دے کر سڑک کے بیچوں بیچ برہنہ کرکے بدترین شدد کا نشانہ بنانا یا پھر قتل کرنے کے ساتھ ساتھ زندہ جلانے کے پے درپے واقعات نے انسانی جبلت کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔
کوئی بھی مہذب معاشرہ اس بات کی قعطآ اجازت نہیں دیتا کہ کسی بھی جاندار خصوصآ انسان کو قانون میں ہاتھ میں لے کر اپنی عدالت لگا کر تشدد کا نشانہ بنا ڈالیں۔ یہ طرہ امتیاز صرف حیوانوں کو حاصل ہے کہ کسی جاندار کو چیر پھاڑ دیں۔ بلاشبہ ہر ریاست کا فرض ہے کہ عوام کے لئے پینے کا صاف پانی سڑک، سرکاری ہاسپیٹل، ٹرانسپورٹ، علاج و معالجہ کی بہترین سہولیات کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ریاست میں بسنے والے تمام مذاہب , مسالک و دیگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے عوام کے جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔ اگرچہ چوری ڈکیتی اور لوٹ مار کی وارداتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ تاہم بحیثت مسلمان جلانا یا ڈبا کر مارنا کسی انسان کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قانون سے بالاتر ہوکر اپنے فیصلے کرے اور کسی پر بھی بدترین تشدد کرے۔ جلاوّگھیراوّ سے مملکت کی سرکاری و نجی املاک کو ہی نقصان پہنچتا ہے جس سے براہ راست عوام ہی متاثر ہوتے ہیں بچے اور نوجوان نسل جب اس مار کٹائی اور خون خرابہ کے عمل کو دیکھتے ہیں تو لامحالہ ان کے ذہنوں میں یہ اثرات ثبث ہوجاتے ہیں جس سے یہ سمجھتے ہیں کہ انتقام لینا اور مار پیٹ ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ عدم برداشت کے رویہ سے نا صرف معاشرے میں انارکی پھیلتی ہے بلکہ دیگر اقوام عالم میں بھی ایک منفی سوچ بیدار ہوتی ہے جس سے ملکی وقار کو بھی شدید دھچکا پہنچتا ہے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے معاشرے میں امن آتشی اور بھائی چارے کے فروغ کے لئے نا تو کسی ادیب، مفکر ، ٹیلی وژن پر بحث و مباحثے کرنے والوں کے ساتھ ساتھ صوتی اور برقی خبر رساں اداروں، پرنٹ میڈیا اور علمائے کرام کا بھی کسی قسم کا کردار نظر نہیں آتا۔ عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے اس کھیل کا اگر تدارک نا کیا گیا تو ممکنہ طور پر آنے والا وقت مذید خطرناک ہوسکتا ہے۔
Im very pleased to find this page. I wanted to thank you for your time due to this wonderful read!! I definitely savored every bit of it and i also have you bookmarked to check out new information in your blog.
Good post. I absolutely appreciate this website. Thanks!
This is the right web site for anybody who would like to understand this topic. You realize so much its almost tough to argue with you (not that I actually would want toÖHaHa). You definitely put a new spin on a subject that has been written about for a long time. Great stuff, just great!