0

ہاسٹل کی سایکو اور سرکس

ہاسٹل کی سایکو اور سرکس جب میں رفاہ یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس کے آمنہ ہاسٹل میں رہتی تھی. تب مجھے ایک عجیب و غریب سی لڑکی سے واسطہ پڑا۔میں نے ہاسٹل بدلا. تو وہ میری نئی روم میٹ تھی۔ زینب ہاسٹل میں نے اس لیے چھوڑا کہ ایک روم میٹ نے میرے منہ پر تکیہ رکھ کر دبایا. اور میری سانس بند کر دی۔اس پر وہ ساری روم میٹس خوب ہنسیں۔ اب تو صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ۔مذاق رہا ایک طرف یہ تو حد تھی۔

 بعد میں نے روم نمبر تینتیس چھوڑ دیا اور فورتھ فلور پر روم نمبر بیالیس لے لیا۔ وہاں بھی اس دماغی توازن کھو. .بیٹھنے والی شادی شدہ آنٹی نے میری جان نہ چھوڑی بولی میں آپ کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہوں۔ دو مہینے قبل میرے بھائی بلال کی حادثے میں وفات ہوگئی تھی

ہاسٹل کی سایکو اور سرکس
ازقلم روبیہ مریم روبی

  پڑھیں: ایک تھا بلال

میں نے کشمیر چھوڑ دیا اور فیصل آباد آگئی تا کہ ڈپریشن سے نجات ہو۔مگر ہاسٹل. میں ایسی پاگل عورت سے واسطہ پڑ گیا. جس نے میری سانس بند کر دی۔

کمرہ بدلا تو اس سایکو نے میری جان نہ چھوڑی.  روز میرے کمرے میں آ کر کہتی میں نے آپ کے ساتھ رہنا ہے کیوں کہ. اس کی نیچ حرکات کو میں نظر انداز کر دیتی تھی۔

لیے وہ ذلیل النفس میری جان نہیں چھوڑتی تھی اور ستانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی. تا کہ اس کی اس بے ڈھنگی ہڑک. اور اندر کے غم و غصے کی تسکین ہو سکے. وہ کوئی ایسا انسان ڈھونڈ رہی تھی جس پر وہ اپنا غصہ نکال سکے ۔

کچھ لوگ انسانوں کو تاڑ لیتےہیں کہ کون کیا ری ایکٹ کرے گا. کون صبر کرے گا۔ میں نے فوراً کمرہ بدلا کہ جو ڈی۔این۔اے اور دماغی توازن خراب لیے پھر رہی ہے. وہ کب میرے ساتھ کیا کر دے کچھ مہینے قبل اسی کی ایک جاننے والی سے مجھے پتہ چلا. کہ یہ لڑکی اپنے محبوب کی دھتکاری ہوئی ہے اور سوسایڈ اٹیمپٹ کر کے.

یونیورسٹی کا کامیابی سے نام بدنام کر چکی ہے

وہ نہ صرف کہ مجھے ہر وقت تنگ کرتی رہتی بلکہ پورے ہاسٹل کی لڑکیوں کو اس سے شکایت رہتی. کہ اس سے عجیب و غریب وایبریشنز آتی ہیں۔یہ تو دیکھنے میں ایویں لگتی ہے ایسا ہی تھا. جب انسان حد درجہ منفی ہو جاتا ہے. تو اس کے اورے کے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں اور اس سے منفی شعاعیں خارج ہوتی ہیں.

جن کی بو لوگ سو میل سے محسوس کر لیتے ہیں کچھ لوگوں سے مل کر خوشی ہوتی ہے.

کیوں کہ وہ مثبت سوچ کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ دراصل سوچ کی وایبریشنز ہوتی ہیں. جن کو لوگ لا شعوری طور پر محسوس کر لیتے ہیں۔ زندگی میں سب کو چیلنجز آتے ہیں وہ لوگ دنیا اور اللہ کے ہاں اچھا مقام حاصل کر لیتے ہیں. جو صبرو شکر سے کام لے کر اپنی کردار سازی کر لیتے ہیں اور کچھ لوگ اس لڑکی جیسے بن جاتے ہیں جس سے بات کیے بغیر ہی. لوگ اس پر تھو تھو شروع کر دیتے ہیں۔جب میں نے اس کی وجہ سے روم بدلا تو روم نمبر بیالیس نیا روم الاٹ ہوا۔

یہاں پانچ لڑکیاں تھیں

شور اور ذہنی فریکوینسی نہ ملنے کی وجہ سے یہاں سے بھی دل اچاٹ ہو گی.  پڑھا نہ جاتا اور چاروں جونیرز عجیب و غریب حرکات کرتیں۔ دو فیصل آباد کی قریبی تھیں  فون کالز فرینڈ شپس بوایے فرینڈز عشق و عاشقی گالم. گلوچ آپس میں لڑائی جھگڑے ایک دوسرے کے ماں باپ کو گالیاں دینا بال کھینچنا. بچوں کی طرح پورے کمرے میں گندگی پھیلانا سر کی جووں کی اچھی دیکھ بال کرنا. اور اپنے خاندانوں کی بڑھ چڑھ کر خوبیاں بیان کرنا. ان سب کا مشغلہ تھا

یہ بھی پڑھیں: ہاسٹل کا ٹیرس

میں نے بمشکل چھ مہینے اس ہاسٹل میں رو دھو کر ایک کونے میں گزارے. اور زینب ہاسٹل چھوڑنے کا ارادہ کر لیا ۔آمنہ ہاسٹل کے لیے درخواست دی. جو کہ اپروو ہو گئی آمنہ ہاسٹل میں آئے. ایک مہینہ سکون سے گزر گیا ایک دن وارڈن کی کال آئی.  جلدی جلدی کرو یہ روم خالی کرو میں ششدر رہ گیی. کہ یہ محترمہ سوتیلی ساس سا رویہ کیوں اختیار کر رہی. ہے میرے ساتھ۔و وارڈن نے آو دیکھا نہ تاو کچھ گھنٹے کا وقت دے دیا اتنے وقت میں روم خالی کرو ورنہ۔

 روم خالی کر دیا

اب مجھے روم نمبر پانچ میں فرسٹ فلور پر بھیج دیا گیا۔ اس کا تعلق گجرانوالہ سے تھا ۔اس  خبیث النفس نے یہاں بھی میری جان نہیں چھوڑی روز کال کرتی. میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں مجھے ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتی. اب تو میرے خوابوں میں بھی آ آ کر اپنی سہیلیوں کے ساتھ غل کر کر کے میرے کانوں کے کیڑے نکالتی. خیر میں نئی نئی اس ہاسٹل میں آئی تھی نئی.  نویلی دلہن کی طرح کچھ اپنے ہاتھوں سے بنا کر کھلایا

  گول گھپے بنائے اور ہمساییوں سمیت سب نے مزے لے لے کر کھائے۔میرا واسطہ

جانگلوسی سایکو سے پڑے کافی عرصہ گزر چکا تھا.  جب میں اس روم میں آئ تو اس نے نہایت حقارت سے ہاتھ کے اشارے سے مجھے کہا یہ آ رہی ہے یہاں ؟

میں ششدر رہ گیی

یہ تو پہلے ہی ذہنی بیمار لگتی ہے اس کے ساتھ وقت کیسے گزرے گا.  خیر اس کی نفرت حقارت اور غصہ مجھ پر دن بدن بڑھتا گیا.  پھر ایک دن مجھے اپنے متعلق خود ہی بتانے لگی.  میں الیڈ کلاس ہو ۔اگر نہ بھی ہوتی تو اللہ کا شکر تھا۔ اب بھی اللہ کا شکر ہے۔میرے پاس سب کچھ  ہے۔ اماں ڈاکٹر ہے ابا بھی کام وام کر لیتا ہے۔ بڑا سٹرکٹ ہوتا تھا اپنے زمانے میں. اگر یہ اردگرد کی لڑکیوں کا میرے روم میں آنا جانا نہ ہوتا تو میں یہاں جوسر رکھتی.

 اوون تو ان لوگوں نے خراب کر دیا ہے  تب ایک روم میٹ گھر تھی  میرا تھری سیٹر روم تھا

روم میٹ سے متعلق کہنے لگی یہ صفائی ستھرائی کا کوئی خیال نہیں رکھتی. اس نے ایک دفعہ میرے اوون میں ان دونوں بہنوں نے ویکس گرم کی. میرے اوون کا ستیاناس کر دیا۔میں چپ چاپ بنا پوچھے سوالوں کے جواب بگھت رہی تھی

سنتی رہی ۔کہنے لگی تمہارے آنے سے پہلے یہاں دو بہنیں رہتی تھیں۔اب ایک چلی گئی  دوسری کی جگہ تم آگئی  ہو  دونوں عجیب تھیں  ۔دونوں کے سر جووں سے بھرے تھے۔ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا. اے آپ کو جوویں ہیں تو دونوں بے شرم بولیں ہاں ہیں. ان کو ہاں کہتے شرم نہ آئی. یہ کھانے پینے کے برتن بیڈ پر ہی رکھ دیتی ہیں۔ یہ جو ہے نا یہ اپنا بیڈ میرے بیڈ سے دور کرتی نہیں۔مجھے بھی جوویں ڈال دی ہیں۔

اے لیکن یہ نماز پڑھتی ہیں

دونوں۔اس دوران اس نے اپنی صرف خوبیاں ہی خوبیاں گنواییں. جن کا ذکر میں اس لیے مناسب نہیں سمجھتی کہ میں نے اس میں ایسی خوبی نہیں دیکھی. ہاں کبھی کبھی نماز دعا کر لیتی ہے۔ میں جب آمنہ ہاسٹل. میں آئی تو سردیاں جا رہی تھیں اس کی گندے میلے اور بدبودار کپڑوں سے بھری. بالٹی واشروم کے اندر ایک مہینے سے پڑی تھی ایک دن خود ہی کہنے لگی. یہ جو کپڑے واش روم میں پڑے ہیں میرے تو نہیں

میں ششدر رہ  گئی

میں نے کب پوچھا کس کے ہیں ۔بولی ان دونوں بہنوں کے ہیں۔ ایک ہفتے بعد اس نے پوری بالٹی کپڑوں کی دھویی. تو مجھے حیرانی ہویی اب واش روم میں صرف دو جرسیاں رہ گئی تھیں یعنی کہ سب کپڑے اسی کے تھے۔

تب مجھے احساس ہوا کہ وہ لڑکی شدید ترین احساس کمتری کا شکار تھی ۔ روز روز نیا ڈریس بدل لیتی باہر کی گندگی صاف کر لیتی مگر اندر کی گندگی اندر دھری کی دھری رہتی۔ پھر ایک دفعہ خود ہی بتانے لگی یہ جو تمہیں کمرے میں ساری چیزیں نظر آ رہی ہیں نا یہ ڈیکوریشن یہ سب میں نے کی ہے۔

ایک مہینے بعد جب دوسری روم میٹ آئی تو انکشاف ہوا

 تو تین چار دس روپے والے اسٹیکرز کے علاوہ یہاں کچھ نہیں لگایا مہنگا شیشہ. اور گھڑی وغیرہ تو دونوں بہنوں نے لگائی ہے. ہاں اس نے اسٹیکرز کے علاوہ ایک کارڈ ضرور کمرے میں رکھ چھوڑا تھا. جس پر لکھا تھا پازیٹو مایینڈ پازیٹو وایبز پازیٹو لائف. جب انسان اخلاقیات کو اپنی زندگی میں شامل کرتا ہے

 جا بجا دیواروں پر اشتہار نہیں لگانے پڑتے بلکہ اس کے اندر سے کردار کی خوشبو آتی ہے۔ وہ لڑکی کوئی  امیر کبیر نہیں تھی  اس لیے کہ اکلوتی تھی ۔ ڈاکٹر حضرات کی انکم  ویسے بھی معمولی لوگوں سے چوگنی ہوتی ہے. اس کو رونمائی اور نمائش کا شوق تھا جس کا وہ بھوپور اظہار کرتی. اور نئے نئے برینڈز کی تشہیر کرتی رہتی۔

 جب اس ہاسٹل میں آئی  ہر کوئی  میری طرف عجیب نظروں سے دیکھتا

کچھ عرصے بعد معلوم ہوا اس پاگل عورت نے میرے متعلق اس لیے پروپیگنڈا مہم چلا رکھی تھی کہ میں اس کے روم میں کیوں آئی  ؟

  مجھے ادھر بد ظن کر دیا پورے ہاسٹل کے بارے میں ادھر ہاسٹل کو مجھ سے بدظن کر دیا ۔ ہمسایہ کمروں کی لڑکیوں کو میسی میسی کہہ کر بلاتی۔وہ میس کام کی لڑکی تھی۔ جو اپنے اساتذہ دوستوں اور باپ سے متعلق بد گمان تھی ۔ایک دن بتانے لگی. میرا ابا مجھے خواہ مخواہ میسجز کرتا رہتا ہے.

۔میں تو رپلایے نہیں کرتی

اماں کو ویڈیو کال پے بات نہیں کرنی آتی ۔ یونیورسٹی کے ٹیچرز خود محنت نہیں کرتے ۔گوگل سے کاپی پیسٹ کرتے ہیں  جب تک تم خود محنت نہیں کرو گے ہمیں کیا سکھاو گے۔

حد ہے۔خود ہی اس بات کی صفاییاں دیتی میرا کوئی  بوائے  فرینڈ نہیں اور سارا دن لڑکوں سے باتیں کرتی رہتی ۔ جب بھی کوئی  بات

 تو غصہ کر کے آواز بلند کرلیتی اسٹل اور اسلام کے پردے میں جا چھپتی احادیث کے حوالے دیتی. ۔مگر اس نے اس آیت کا کبھی حوالہ نہ دیا کہ اے ایمان والو تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں۔

میں بتاتی ہوں ہاسٹل کیوں؟

  کیوںکہ وہ جو کہتی وہ کرتی کبھی نہیں تھی ۔فروٹس والوں سے دس روپے کے لیے جھگڑ پڑتی۔ یونیورسٹی گارڈز کے بارے میں نہ گفتہ بہ باتیں کرتی۔ان کو خواہ مخواہ دھمکیاں دیتی میں تمہاری ویڈیو بنا کر یو ٹیوب پر چڑھا دوں گی

تمہیں نہیں پتہ میں میس کام کی طالبہ ہوں ۔ٹیچرز کو بھی ایسے ہی کہتی ۔ جن کی یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی ۔ایک دفعہ آیا جی نے اس کی مٹھائی  کی ایک ٹکیا جو اوون کے اوپر پڑی تھی اٹھا کر کھا لی۔اس نے آیا جی ( سویپر)

سے اتنی لڑائی  کی کہ آیا جی نے مٹھائی کا پورا ڈبہ لا کر اس کو دیا ۔آیا جی کو اس نے گھر میں میٹر بھی لگوا دیا تھا۔ جس میں اور لڑکیوں کا ٹریبیوشن بھی تھا مگر کہتی میں اکیلی نے اس کو میٹر کے پیسے دیے۔ان بہنوں نے تو صرف ہزار روپیہ دیا۔

اس لیے ہاسٹل آیا جی کو

احسان تلے دبا کر خوب غصہ کرتی۔جس جس کو اپنے گھر کا کھانا زبردستی کھلاتی اس اس پر جما کر غصہ کرنا اپنا حق سمجھتی۔اس کی ایک دوست تھی جو یتیم تھی ہاسٹل میں لڑکیاں باتیں کرتی تھیں کہ وہ لڑکی یتیم ہے خود کماتی ہے اور سارے گھر کا خرچ اٹھاتی ہے۔اس سے اس نے ادھار لیا تھا۔

 باپ اسے ہر عید پر پانچ ہزار عیدی دیتا اس نے اپنی دوست سے سات ہزار ادھار لے رکھا تھا جب یتیم لڑکی نے قرضہ مانگا بولی ان پیسوں سے کاٹ لو جو میرا ابا تمہیں ہر عید پے دیتا ہے.

 لڑکی جب اس کے پاس ہاسٹل آتی تو وہ اس کو انڈے ابال کر دیتی ۔اس کی کییر کرتی مگر منہ پر تھپڑ بھی مارتی۔خواہ مخواہ غصہ کرتی۔اس پر ٹانگیں رکھ کر بیٹھ جاتی

 سب کے سامنے ہاسٹل نہ گفتہ ہاسٹل بہ حرکتیں کرتی جو نارمل انسان سوچ نہیں سکتا

 وہ کلاس فیلوز جو اس سے بات چیت نہیں کرتی تھیں ان سے متعلق کہتی یہ ہر چیز میں مجھے کاپی کرتی ہیں ۔خود تو ان میں عقل نہیں ہے۔ آج یہ کہانی قارئین  کو سنانے کا ایک مقصد ہے۔

 والدین سے گزارش ہے ہاسٹل کہ

اپنی بیٹیوں کی تربیت کریں اس کے بعد گھر سے باہر ہاسٹل یا کہیں بھی بھیجیں۔لڑکی جب گھر سے باہر جاتی ہے پورے خاندان کی روایات اور تعلیمات ساتھ لے کر جاتی ہے۔

کسی خاندان کو دیکھنا ہو تو اس گھر کی عورت کو دیکھا جاتا ہے خواتین خود اس بات کا خیال رکھیں۔ہاسٹل والوں کو بھی چاہئے  کہ ایک کمرے میں پانچ پانچ خواتین کو نہ ٹھونسیں۔

بزنس ضرور کریں لیکن بزنس کے نام پر بچوں کو ذہنی اذیت نہ دیں۔مستقبل کے معماروں کو اگر اس طرح کا ماحول ملے گا تو یہ جاب یا ملازمت میں ڈپریشن کا شکار ہی رہیں گے۔

 ایک ذہنی مریض کیسے خوشحال پاکستان دے سکے گا اگلی نسل کو؟ زندہ رہنے کےلیے ذہنی سکون سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

ہاسٹل کی سایکو اور سرکس“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں