0

نوجوان لڑکیاں بے راروی کا شکار قصور وار کون۔

کم و بیش تین کروڑ کی آبادی رکھنے والے نوجوان لڑکیاںشہر کے جہاں تعلیم روزگار، امن و امان ، بجلی پانی گیس. اور دیگر قدرتی وسائل کے فقدان سمیت ان گنت مسائل موجود ہیں وہیں. اس معاشرے میں کم سن اور نوجوان لڑکیوں کی پسند کی شادی کی خاطر بھاگ. کر نکاح کرنا ایک معمول کا حصہ بن گیا ہے.

زیادہ تر یہ واقعات متوسط طبقے میں دیکھنے کو نظر آتے ہیں کیونکہ معاشی پریشانی کے. سبب جہاں انسان ایک نفسیاتی مسائل کا شکار ہے. وہیں وہیں معاشی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے شدید تگ و دو کرنی پڑتی ہے. جس کے سبب گھر کے ماحول پر توجہ نہیں دے پاتا. اور گھروں میں نوجوان لڑکیاں اس ماحول میں انتہائی گھٹن. اور بے زاری محسوس کرنے لگتی ہیں تو سوشل میڈیا. جس کی رسائی ہر گھر ہر فرد تک پہنچ چکی ہے سے فائدہ اٹھانے. کے سبب ایک ایسے سراب میں ڈوبنے لگتی ہیں.

جس کی منزل کو پانے کے لئے انتہائی اقدام سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا گذشتہ چند عرصے سے یہ تاثر نابالغ لڑکیوں میں زیادہ پایا جانے لگا ہے. کہ وہ اپنے خواب کی تکمیل کے لئے کسی حد تک بھی گزر سکتی ہیں. تاہم اس سارے معاملے میں صرف نوجوان لڑکیوں یا اہل خانہ کو موردالزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

۔
بدقسمتی سے ہم ایسے معاشرے کو جنم دے رہے ہیں جہاں کسی بھی کام کے لئے مردوں کے بجائے. خواتین اور غیر شادی شدہ نوجوان لڑکیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ جہاں بھی اکثر و بیشتر اپنے ادارے کے افسران یا ورکرز کے ساتھ جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے. بعض اوقات اپنی عزت اور اہلخانہ کی کفالت کی خاطر نوکری بچانے کے لئے یہ تمام کڑوا گھونٹ پینا پڑتا ہے. جبکہ معاشرے میں شادی شدہ خواتین بھی اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کی. خاطر گھروں سے راہ فرار اختیار کرنے کی شرح میں بھِی خطرناک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

گذشتہ چند سالوں کے مختلف اضلاع میں – نوجوان لڑکیاں درج مقدمات سے بھی بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ لڑکی کے والدین بیٹی کی گمشدگی کے بجائے. اغواء کا مقدمہ درج کرواتے ہیں تاہم بعد میں لڑکی کا نکاح نامہ سامنے آجاتا ہے۔ جبکہ ہزاروں ایسے واقعات بھی ہیں. جہاں والدین اپنی عزت کی خاطر تھانے جانے کا رخ نہیں کرتے۔ لگاتار بڑھتے ہوئے. اس واقعات سے نا تو والدین کی تربیت کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا. نا ہی اس سسٹم کو بلکہ ہم سب مل کر خود ایسا معاشرہ جنم دے ہے ہیں جہاں چند سو روپے کی.
خاطر نوجوان لڑکیاں جسم کی خرید و فروخت ہوتی ہے شہر بھر کے گلی کوچوں میں کھلے فحاشی کے. اڈے اس کی تازہ مثال ہیں جہاں کھلے عام جسم فروشی کا کاروبار عروج پر ہے۔ اس حوالے سے. جب مختلف آراء لی گئی تو پتا چلا کہ اوّل تو مناسب تعلیم نا ہونے کے سبب اچھی نوکری نہیں ملتی. اور اگر مل بھی جائے تو وہاں بھی پہلے دوستی. اور پھر جسم کا تقاضہ کیا جاتا ہے جب اس سارے ماحول میں یہ ہی کرنا ہے. تو کیوں نا ہم اسی دھندے کو اپنا پیشہ بنا لیں۔ یہ ایک ایسا کڑوا سچ ہے جسے چار ر نا چار پینا ہی پڑتا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

3 تبصرے ”نوجوان لڑکیاں بے راروی کا شکار قصور وار کون۔

اپنا تبصرہ بھیجیں