0

ناگن اور نگینہ کی کہانی

ناگن اور نگینہ, روبیہ یہ یونیورسٹی والے بہت عجیب و غریب ہیں۔ان کے سامنے ذرا سا منہ کھولو یہ ڈگری روک لیتے ہیں۔جن لڑکیوں کو ٹیچرز کی فیور حاصل ہوتی ہے نا وہ کچھ بھی کروا سکتی ہیں. آپ کے ساتھ۔وہ تو ہے ہی ایسی۔ یعنی کہ وہ جب آتی یوں ہی کلاس فیلوز اور اساتذہ کے خلاف. میرے سامنے پروپیگنڈہ کرتی رہتی تھی۔میں مارے افسوس اندر ہی اندر کڑھتی رہتی تھی کہ آخر ایسا کیوں؟

وہ میری کلاس فیلو تھی۔میں جس ہاسٹل میں رہتی تھی. وہ اکثر وہاں آتی جاتی تھی کہتی تھی میرا ڈسا کبھی پانی نہیں مانگتا۔ مجھے بحیثیت لکھاری کام کرتے ہوِئے تقریبا سترہ اٹھارہ سال ہو. چکے کہ میں نے چوتھی پانچویں. یا اس سے بھی قبل لکھنے سے متعلق سوچنا شروع کر دیا تھا۔ اور چھٹی ساتویں میں باقاعدہ لکھنا شروع کیا۔ اس میں لکھنے کی صلاحیت ہر گز نہیں تھی۔مجھے کہتی تھی. مجھے ایوارڈ دلواو۔اپنے رایٹرز اساتذہ کرام سے رابطہ کراو۔ اور میری تحاریر بھی شائع کرواو جب میں نے اس سے کہا کہ تحریر شائع

https://cidnews.info/archives/1586یہ بھی پڑھیں: ٹریجڈی کا امپائر

.کروانے کے لیے بڑی محنت درکار ہوتی ہے تو کہنے لگی جیسے مرضی کراو مگر میری تحریر شائع ہونی چاہیے۔
خود لکھو اور میرے نام سے شائع کروا دو۔ جو کرنا ہے تم نے کرنا ہے مجھے تو کچھ آتا نہیں یہ بات تم جانتی ہو!میرے پاوں تلے سے جیسے زمین کھسک جاتی. کہ میں ایسا کیسے کر سکتی ہوں۔

میں صرف اپنے قاریین سے

یہ پوچھنا چاہتی ہوں. کہ اگر آپ کو کویی لکھاری دوست میسر آ ہی جاتا ہے. تو کیا آپ اس کے دماغ کی ایسے دہی کرو گے۔ معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آپ کو میرے الفاظ بہت زیادہ سخت محسوس ہو سکتے ہیں.

مگر حقیقت یہی ہے۔

آپ خود دیکھیے کتنے لوگ ہیں ہمارے معاشرے میں جو ایک لکھاری کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں. اور ان لوگوں کو دیکھیے کہ جو ایسوں کی راہ ہموار کرنے کی بجایے. ان کے راستے کا روڑہ بن چکے ہیں،ہم کب ٹھیک ہوں گے. کب اپنے رویوں کو درست کریں گے؟

کب اس بات کو سمجھیں گے کہ

اگر اللہ رب العزت نے کسی کو کوئی مقام عطا کیا ہے. تو اس کے پیچھے اس کی کتنی محنت ہے؟اس نے کتنی راتیں جاگی ہوں گی؟ کتنی اپنوں کی شادیاں. اور خوشیاں چھوڑی ہوں گی؟کتنے اکیلے دکھ درد سہے ہوں گے ؟ کتنا تفکر کیا ہو گا؟ اور پھر وہ اس قابل ہوا. کہ وہ اپنے آپ کو جان سکے۔اندر کے غم کو لفظوں کی صورت میں صفحہ قرطاس پر بکھیر سکے۔کیا ایوارڈز ایسے ہی مل جاتے ہیں؟

آپ دوسروں کے کندھوں پر رکھ کر

بندوق چلاو اور ادبی ایوارڈ اپنے نام کر لو۔تف اس سوچ پر کہ قومی سطح پر جاہلیت کا یہ عالم ہے کہ آپ کام نہیں کر رہے. نہ ہی کام کرنا آتا ہے اور آپ ایسے نیچ باتیں سوچ رہے ہیں۔ افسوس میرے ایک استاد محترم صاحب کے الفاظ ہیں. کہ ہم بچوں کو صرف لفظ کی تعلیم دے رہے ہیں

ناگن اور نگینہ – ان کو اخلاقیات اور ادب نہیں سکھا رہے

۔ ایسا ہی ہے۔میں فیصل آباد جب پہلی بار آئی تو مجھے یہی مسئلہ درپیش آیا. کہ کچھ یونیورسٹی فیلوز کا اپنا ٹیچرز اور اسٹوڈنٹس کے ساتھ رشتہ اچھا چل رہا ہوتا ہے. مگر نئے آنے والوں کو وہ اس قدر اساتذہ اور یونیورسٹی سے بدظن کر دیتے ہیں. کہ یہ بندہ بس مجھ تک محدود ہو جایے۔اور اس کو ہوا نا لگنے پائے. کسی کی۔وہ بھی میرے ساتھ ایسے ہی کرتی مجھے کہتی کشمیری تو بھولے بھالے ہوتے ہیں. مگر فیصل آبادی بہت چالاک ہیں ۔

فیصل آبادیوں پر کبھی یقین نہ کرنا

مجھے حیرت ہویی ایک فیصل آباد کی لڑکی کیسے ڈیفینڈ کر رہی تھی. اپنے شہر کو ہم کشمیریوں کے ذہن میں تو یہ بیٹھا ہے. کہ فیصل آبادی بڑے ہنس مکھ جگت باز اور زندہ دل لوگ ہیں. پھر اس لڑکی نے مجھے ایسا کیوں کہا؟ یہی باتیں سوچتی سوچتی میں اتنی ڈپریس ہو گئی. کے اسپتال پہنچ گئی ۔طبیعت بگڑ گئی ۔ آج یہ ساری باتیں کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے اردگرد دیکھیے. وہ کون لوگ ہیں جو آپ سے حسد کر رہے ہیں

ناگن اور نگینہ- آپ کو ہنستا بولتا ہیں دیکھنا چاہتے۔

کیا برین ہیمرج ڈپریشن اور اس طرح کی سو قسم کی بیماریوں کی وجہ ایسے رویئے تو نہیں ، سوچئے ضرور سوچئے. اور اپنی رائے کا اظہار کیجیئے ۔میں ان لوگوں کو سپورٹ کرتی ہوں. جو با صلاحیت ہیں۔کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر ایسے ویسوں کو کیسے سپورٹ کر سکتی ہوں۔یہ کیسے ممکن ہے؟

خیر میری صحت یابی کے لیے دعا کیجیے اور یہ قصہ بہت لمبا ہے بقیہ پھر سہی۔ سچیے گا ضرور! اگر آپ معاشرے کے بہترین فرد ثابت ہونے کی کوشش کر رہے ہیں. تو آپ کو ایسے لوگوں کا سامنا تو نہیں؟؟؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں