ور گداگیروں کا راج قائم ہوگیا۔
مختلف علاقوں سے بذریعہ ٹرین اور دیگر نقل حمل کے ذرائع استعمال کر کے کراچی سمیت ملک کے بڑے بڑے شہروں کے چوراہوں، اور ٹریفک سنگل پر قبضہ جما لیا۔ گداگیری کے لئے خصوصا خواتین اور چھوٹے بچوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نوجوان لڑکیاں بے راروی کا شکار قصور وار کون۔
واضح رہے ان گداگیروں کے مخصوص
ٹولہ کے تانے بانے بڑے بڑے سرکاری افسران سے ملتے ہیں جوکہ باقاعدہ ایک ٹینڈر کی صورت میں کسی بھی شہر کے مخصوص. علاقوں پر ان پیشہ ور گداگیروں کی فوج اتار دیتے ہیں.
اور اپنی حیثیت کو بروئے کار لا کر ان ایس ایچ اوز اور دیگر قانون نافذ کرنے والوں اداروں کو پابند کیا جاتا ہے. کہ ان بھیک مانگنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نا کی جائے۔
کراچی میں یہ گداگیر اندرون
سندھ اور پنجاب کے مخصوص علاقوں سے لائے جاتے ہیں جن کو جگہ اور مقام الاٹ کیا جاتا ہے۔
تحقیق سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے. کہ غربت کے باعث بہت سی خواتین ان نومولود بچوں کو کرائے.
پر دیتی ہیں تاکہ شام کو ان بچوں کے عوض زندگی کے شب و روز گزارنے کے لئے کھانے پینے کا بندوبست ہوسکے.
لیکن ان گداگیروں کی اکثریت کوبھیک مانگنے کے ساتھ ساتھ چوری اور کسی علاقے کی ریکی کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے. تاکہ کسی بھی گھر میں موجود وہاں کے اہلخانہ کی تعداد اور ان کے آنے جانے کی ٹائمنگ معلوم کر سکیں
یہ ساری معلومات وہ اپنے ایجنٹ کو دیتے ہیں جس کے بعد کسی گھر میں چوری یا ڈکیتی کے لئے استعمال ہوتے ہیں. اس کی تازہ مثال کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد بلاک آر میں ہونے والی ڈکیتی کی واردات تھِی. جس کو علاقہ مکینوں نے پہچان کر دھنائی کر دی. مذکورہ ڈکیت انڈے سپلائی کے بہانے علاقے اور گھروں کی ریکی کر کے اپنے ساتھیوں کوف راہم کرتا تھا۔
اسی طرح مختلف علاقوں میں بھیک مانگنے والےافراد گلی محلے کا گشت کر کے وہاں پر چوری اور دیگر منظم جرائم کی بھرپور معاونت کرتے ہیں. اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے. اداروں کو ایک بھرپور منظم نظام بنانے کی اشد ضرورت ہے. تاکہ اس طرح کے واقعات میں کمی لائی جاسکے۔
”گداگیروں کی آمد“ ایک تبصرہ