دکھاوے اور انا کی زندگی بھی بڑی عجیب ہوتی ہے
پاکستان میں دوطبقات بڑی اطمینان کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک غریب اوردوسرا امیر۔ یہ جو درمیان والے ”مڈل کلاسیئے“ لوگ ہیں حقیقت میں بیڑا غرق. ان کا ہورہا ھے۔ یہ رکھ رکھاو سے لگ بھگ امیر لگتے ہیں. لیکن حقیقت میں بڑے ہی کرب میں مبتلا ہوتے ہیں۔
قابل رحم اور قابل نفرت بھی دو ہی طبقات ہیں
ایک امیراوردوسرا غریب۔ امیر قابل نفرت اس لئے ھے کہ اس کے پاس پیسہ ھے۔ غریب قابل رحم اس لئے ھے کہ اس کے پاس پیسہ نہیں ھے۔
پاکستان کا بجٹ بھی انہی دو طبقات کو مدنظر رکھ کر بنایا جاتا ھے. درمیان میں جو سینڈوچ بنتا ھے وہ بے چارا مڈل کلاس طبقہ ھے. کیونکہ امیر لوگ اسے غریب سمجھتے ہیں. اور غریب لوگ اسے امیرسمجھتے ہیں۔ ان مڈل کلاسیوں کی بد قسمتی یہ بھی ھے. کہ یہ اپنے سے کم ترعزیزواقارب اور دوست احباب سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتے.
اور اپنے سے اوپر والے لوگ انہیں
اپنے قریب آنے نہیں دیتے۔ یہ جتنے بھی جتن کرکے الٹے سیدھے ہاتھ پاﺅں مارکر اورمال بناکر اپنے سے اوپر والے لوگوں کے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں وہ ان سے دو قدم آگے نکل جاتے ہیں۔ یعنی جوں جوں علاج کیا توں توں مرض بڑھتا چلا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ہاسٹل کی سایکو اور سرکس
پاکستان میں امیروں اور غریبوں سے
کہیں زیادہ تعداد مڈل کلاسیوں کی ھے لیکن یہ کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوتے۔ آج ہر وہ بندہ مزے میں ھے جس کے پاس بہت سارا پیسہ ھے یا. جس کے پاس پیسہ بالکل نہیں ھے۔ جس کے پاس پیسہ ھے. وہ اے سی میں سورہا ھے اورجس کے پاس پیسہ نہیں وہ کہیں. بھیا ور کسی بھی فٹ پاتھ پراپنی نیند پوری کر لیتا ھے۔پیسے
والے کو کسی سے کچھ مانگنے کی ضرورت
نہیں اور غریب کو ہر کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے میں کوئی عار نہیں۔رگڑا وہ جارہا ھے جس کے پاس پیسہ تو ھے مگر صرف گذارے اور دکھاوے کے لائق۔
دیکھا جائے توغریبوں کی اکثریت کو یہ مڈل کلاسیئے ہی پال رہے ہیں۔ کبھی خد متی کام کرکے. کبھی مالی امداد کرکے تو کبھی راشن تقسیم کرک. اس خد متی کام کو سرانجام دینے کیلئے انہیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں.
اور کن کن سے تعاون درکار ہوتا ھے یہ ایک الگ کہانی ھے۔ بعض اوقات تو ان کی اپنی زندگی غریب سے بھی بدتر گذر رہی ہوتی ھے. لیکن انا کے مارے یہ بے چارے کسی کو بتا بھی نہیں سکتے. آپ نے لوئر مڈل کلاس یا اپر مڈل کلاس کے الفاظ سنے ہوں گے.
ان میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا۔
نیندیں دونوں ہی کی اڑی رہتی ہیں۔ ان کی اکثریت چونکہ پڑھی لکھی ہوتی ھے۔ لہٰذا کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتی۔ ان کے گھروں میں کام کرنے والی غریب ماسیاں. چونکہ دیگر گھروں میں بھی کام کرتی ہیں اس لئے رمضان میں ہر گھر سے. راشن کے نام پر لگ بھگ سو دو سو کلو آٹا. اور دیگر راشن چار پانچ ماہ کا اکٹھا کرنے میں کامیاب رہتی ہیں. اور ساتھ ہی کپڑوں کا بھی بندوبست ہوجاتا ھے۔
لیکن مڈل کلاسیوں کو یہ پریشانی لاحق رہتی ھے
کہ گھر کیلئے جو پندرہ دن کا راشن لائے تھے وہ ختم ہونے کے قریب ھے. اور تنخواہ ملنے میں ابھی کافی دن باقی ہیں۔ زکوٰة غریبوں کو جاتی ھے. خیرات اور فطرانہ بھی غریب کا نصیب بنتا ھے. اس لئے غریب کوئی بھی کام کرنے پرآمادہ نہیں ہوتا. اسے جب بھوک لگتی ھے تو یہ جگہ جگہ قائم ایدھی، چھیپا، سیلانی اورعالمگیر جیسے غریبوں کی خدمت پر ماموراداروں کی جانب سے دیئے گئے.
بکرے کا سالن اور روٹی سے خوب سیر ہوکر پیٹ بھرلیتے ہیں۔
لہٰذا اس غریب نے یہ طے کر لیا ھے کہ چونکہ وہ غریب ھے اس لئے کسی قسم کی. کوئی بھی محنت اس پر فرض یا واجب نہیں ھے۔ اس بات کی حقیقت آپ کسی بھی مانگنے والے کو کام کی آفر کرکے دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن مڈل کلاسیا کیا کرے؟
یہ نہ تو زکوٰة مانگ سکتا ھے اور نہ ہی فطرہ و خیرات؟ اس کے نصیب میں صرف کڑھنا، سسکنا اور بعد ازاں مرجانا ہوتا ھے۔ یہ دکھاوے اورانا کی زندگی بھی کیا زندگی ھے؟