وہ بیدار بخت خوش نصیب اور اقبال مند آج. اس دنیا میں موجود نہیں مگر ٹریجڈی اس کی پرکشش مسکراہٹ اور دھیمی آواز کی لے آج بھی دلوں کو مسحور کرتی ہے۔
آج 16 اگست کو کشمیر ٹریجڈی کے شیر
دل بہادر نوجوان بلال کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔وہ 16اگست 2020 کو بھوکا پیاسا پسینے میں. شرابور خدمتِ خلق میں مصروف. ایک خادثے کا شکار ہو کر خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ وہ ٹریجڈی بلاشبہ کشمیر کا بیٹا تھا جس کا نام آتے ہی ہر آنکھ اشکبار ہو جاتی ہے۔ بھمبر آزاد کشمیر کا بچہ بچہ اس کو یاد کرتا ہے۔ وہ منظر قابلِ تحسین تھا.
جب ننھے بچوں نے اس کے جنازے
میں شرکت کی کیوں کہ وہ ان کو نہ صرف عیدی دیتا بل کہ ٹافیاں بھی ٹریجڈی دیتا تھا۔ بچے بوڑھے سب اس کے دلدادا ہیں۔ اس نے بے بھوک پیاس کے بے شمار دن دیکھے. مگر کسی سوالی اور مسافر کو خالی پیٹ نہ جانے دیا۔ وہ حضورﷺ کو اپنا عظیم استاد اور لیڈر مانتا تھا۔
شرک جیسے موضوع پر لوگوں
کو آگاہی دینا ضروری سمجھتا تھا کہ جانتا تھا مشرک کے لیے آخرت میں کوئی گنجائش نہیں۔ اس کے بڑوں کی تمام عمر یہی کوشش رہی کہ بچوں کے پیٹ میں رزقِ حلال ہی جائے. ورنہ بھوک بہتر ہے۔اس بات کا سب احترام کرتے رہے۔ اس نے 15 اکتوبر کو آنکھ کھولی تھی۔بچپن شرارتوں میں گزرا۔ بہن بھائیوں کے ساتھ کھیتوں میں لہسن لگانے کے مقابلے کرتا تھا۔
تھوڑا شرمیلا تھا۔بکری پسندیدہ جانور تھا
۔اس کو میٹھا بادام اخروٹ ٹافیاں اور کشمش بہت پسند تھی۔بچوں بڑوں اور جانوروں کا خیال رکھتا تھا۔اس کو کتابیں رٹنے سے عملی زندگی زیادہ آسان لگتی تھی۔ اوائل عمری میں ہی گھر کے حالات کے تناظر میں اسے محنت اور مشقت کی عادت پڑ گئی تھی۔ اس کا گھر مٹی کا ہوا کرتا تھا۔
جب بھی شدید بارشوں سے گھر کی دیوار
گر جاتی تو مستری کی طرح خود ہی تعمیر کرنا شروع کر دیتا۔ وہ یہی جذبہ دوسروں کے لیے بھی رکھتا تھا۔تپتی دوپہر اور آگ برساتے سورج تلے. لوگوں کے ہاں مزدوری کرتا تو ایک روپیہ نہ وصولتا۔ یہ رویہ اس نے گھر سے سیکھا تھا۔ گلیوں کی مرمت اور بکریاں چرانے میں اس کا بچپنا بیت گیا۔ کب جوانی کی دہلیز پر پہنچا کب وقت بیت گیا کچھ معلوم نہیں۔ اسے کبھی کسی نے نہیں کہا تھا. کدال اور بیلچہ لے جاؤ ۔فلاں راستہ اور سڑک مرمت کردو۔ سب کام اپنی خوشی اندرونی جذبے. اور اپنی تعلیمات کے بل بوتے پر کرتا تھا۔ہر اس کام میں حصہ لے لیتا.
جس میں گاؤں والوں کا مفاد ہوتا
اور بلامعاوضہ کر دیتا۔گندم کی کٹائی کے موسم میں کندھے پر بوریاں لاد کر لوگوں کے گھر پھینک آتا. حیرانی اس بات کی ہے کہ وہ کسی کے گھر سے پانی تک نہ پیتا۔دوستوں کے گھر جاتا
مگر بارہا اصرار پر بھی گھر کے اندر نہ جاتا تھا۔بہت اچھا باورچی تھا۔دوستوں اور مسافروں کو اپنے ہاتھ کا کھانا کھلاتا تھا۔ اب اس کے حلقۂ احباب کو گھر کا کھانا پھیکا لگتا۔ اس کی پتلی بھوری مونچھیں اور سنہرے بال سرخ و سفید چہرے پر جچتے تھے۔ وہ بچپن میں کالج کے لڑکوں کا پسندیدہ بچہ تھا
اب بھی ایسا تھا مگر مشت خاکی میں خوب صورتی کا طنطنہ نہ تھا۔اس نے لمبے سفر کیے مگر بامقصد۔ ایک دفعہ اکیس سال کی عمر میں کراچی سے میرپور تک کا سفر محض خون کا عطیہ کرنے کے لیے کیا۔ اسے گاڑی چلانے کا شوق تھا.
۔ٹریکٹر اور موٹر سائیکل کو اپنی
مرضی سے چلانا گھمانا اور پرپیچ راستوں سے کامیاب گزارنا اس کا ہنر تھا. ایکسی ویٹر چلانا پسند تھی۔اس کا ڈرائیور آپریٹر اور مکینک خود تھا. اس کو لیور سے گھما کر محظوظ ہوتا تھا. بلال ایکسی ویٹر سے وینٹی لیٹر کے سفر تک بے شمار نشیب و فراز اور تنگیوں سے گزرا.
اسے نیچر اور وزیٹنگ پلیسز پسند تھیں
سرو قد درختوں سے الفت ٹریجڈی تھی۔ اڈوینچرس گیمز اور انوکھی چیزیں پسند تھیں. ہر چیز اور عمل میں دوسروں کا مفاد ڈھونڈتا. اس کا خواب تھا۔فلاں گنجان اور سنسان علاقے میں واٹر کلر لگ جائے. فلاں سڑک ٹھیک ہو جائے۔فلاں گلی کی تعمیرِ نو کر دی جائے.
بلال کی شہادت کے بعد ٹریجڈی اس کے خاص
دوست بلال ویلفئیر ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لائے. جس کے روحِ رواں عاصم منیر چوہدری ہیں. اس ایسوسی ایشن کا مقصد گلیاں بنوانا ٹوٹے پھوٹے راستے ٹھیک کرنا. ویران جگہوں پر کلر لگوانا اور غریبوں کی مدد کرنا ہے۔یہی بلال کا خواب تھا۔
”ٹریجڈی کا امپائر“ ایک تبصرہ