کراچی کے ساحل. پیشہ سمندر میں جہاں گھوڑے اور موٹرسائیکل رائیڈ کروانے والوں لوگوں کی بدمعاشی ایک مدت سے دیکھی جا سکتی ہے۔
وہ نا تو کسی مرد کو بخشتے ہیں اور نا ہی کسی فیملی کو کراچی کی مقامی آبادی ساحل سمندر یا کسی تفریح مقام پر جانے سے اسی لئے کتراتی ہے. کہ وہاں افغانیوں کا پولیس سرپرستی میں باقاعدہ منظم نظام قائم ہے. جس کے باعث ان کے خلاف آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
س کے برعکس اگر کراچی کا مقامی نا صرف غیر ملکیوں کو مفت میں لفٹ دیتا. بلکہ ہوٹل میں مفت کھانے کی بھی پیشکش کرتے ہیں۔
ساحل سمندر پر پیشہ ہونے والی حرکات
سے نا صرف کراچی کی پیشہ ساکھ بری طرح متاثر ہوتی ہے. بلکہ پورے ملک کی بدنامی کا بھی باعث بنتے ہیں۔
اسی طرح گداگیروں کا جم عفیر نے ہر چوک ہر چوراہے اور ہر سنگل پر اپنا قبضہ جمایا ہوا ہے. مختلف پیشہ علاقے اور خاص کر مخصوص علاقے ماہانہ لاکھوں کے ٹھیکے پر دیئے جاتے ہیں. جس کے پولیس کے ساتھ ساتھ تانے بانے بااثر سیاسی جماعتوں کے بااثر عناصر سے ملتے ہیں. جو مختلف علاقے میں دن کے وقت بھیک مانگتے ہیں اور رات میں چوری کرنے کے ساتھ ساتھ ڈکیتوں سے سہولت کاری. کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔
چوراہے پر درجنوں کی تعداد میں
مانگنے والوں کی بہات دیکھی جا سکتی ہے. جس میں کم سن بچوں سے بھیک منگوائی جاتی ہے۔ بعض اوقات غربت کے باعث مائیں اپنے شیرخوار بچوں کو بھیک مانگنے والے کو کرائے پر دے دیتی ہیں. جو ایک مخصوص یومیہ اور ہفتہ وار طے شدہ رقم کے عوض معصوم بچے کا سودا کرتے ہیں۔
گذشتہ روز کراچی کی سب سے
بڑی معروف شاہراہ ایم اے جناح روڈ. صدر موبائل مارکیٹ اوراس کے اطراف پر گداگیروں کے اسٹوری پر کام کرنے والی ورکنگ جرنلسٹ پر حملہ کر دیا. خاتون صحافی بچوں پر بھیک مانگنے والے بچوں کی وڈیو بنا رہی تھی. تو اچانک ہاتھوں میں ڈنڈے اور پانے پکڑے کئی بچے اور بھیک مانگنے والے افراد نے گھیر لیا.
اور ہر صورت میں وڈیو ڈلیٹ پیشہ کرنے کو کہا
تاہم دکھانے کے لئے کئی وڈیوز ڈلیٹ کرنی پڑی۔ موجودہ صورتحال سے واضح طور پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے. کہ کراچی میں گداگیروں کا ٹولہ کس قدر بااثر افراد اور پولیس کی سرپرستی میں منظم طور پر کام کر رہا ہے. جس کے باعث شہر قائد میں. نا صرف چوری، ڈکیتی اور چھینا جھبپٹی کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
واضح رہے کچھ عرصے قبل پیشہ ور گدا گیروں کے خلاف آپریشن ہوا تھا. جس کے باعث شہر میں جرائم کی وارداتوں میں واضح طور پر کمی واقع ہوئی تاہم۔ پیشہ ور گداگیروں کے مافیاز نے سرکاری. اور سیاسی افسران سے ریٹ طے کر کے. ایک مرتبہ پھر اپنے ٹھیکے واپس لے لئے ہیں۔
جیسا کہ ذرائع نے اشارہ کیا ہے، ہوبو مافیا کے طور پر متحرک ہیں۔ بوموں نے اپنے علاقے اور پوچھنے کی حدود کو تقسیم کیا ہے۔ ڈی جی سوشل ویلفیئر مدثر ملک کا پولیس کے قبضے کے خلاف سرگرمی کا اظہار۔ حبس کے خلاف اقدام کرنے کے لیے ریگولیشن بنانے کی ضرورت ہے۔ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ماہر بوم قابلیت والے افراد کی آزادیوں کو مار ڈالتے ہیں۔ عوامی اتھارٹی کو اس طرح ایک طاقتور طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہوبوس کی بڑھتی ہوئی تعداد جرائم کی شرح کو بھی بڑھا رہی ہے۔