کبھی کبھی رات کے گھپ اندھیرے میں ہاسٹل کے ٹیرس پر چلی جاتی ہوں. پورے شہر کا سناٹا اور گاڑیوں کا شور ایک بھیانک آواز میں سمٹ کر کانوں میں گونجتا ہے. پوری یونیورسٹی کا دل فریب نظارہ آنکھوں میں کسی خواب کی طرح اتر جاتا ہ.
بائیں طرف دراز قد درختوں کی اوٹ میں
ایک ہوٹل کے ملازم بڑی بڑی ہانڈیاں اٹھائے دھو رہے ہوتے ہیں. دوسری طرف فضا میں چھائے اندھیرے کو چیرتی انسانی ہاتھوں کے ایجاد کردہ. بلب کی روشنی تصویر کا دوسرا بھیانک رخ دکھاتی ہے. ایک معصوم سا بارہ سال کا لڑکا جو ایک معمولی سے کیفے سے اس لیے نوکری چھوڑ بیٹھا ہے.
کہ وہ چھٹی دیر سے دیتے ہیں سبزی کے
ٹوکرے اٹھائے رکشے سے سامان اتارتا ہے اور اپنے نئے مالک کی دکان بھرتا ہے. اب بھی اس کو چھٹی دیر سے ملتی ہے مگر فرق صرف اتنا ہے. کہ اس کی تنخواہ بڑھا دی گئی ہے. آمنہ ہاسٹل کے سامنے دراصل چار منزلہ اسٹوری ہے. نیچے دو پورشن میں آئی۔ٹی کلاسز ہوتی ہیں.
اور اوپر دو پورشن میں خدیجہ ہاسٹل ہے
۔جہاں سے ایک چالاک سی لڑکی نے زینب ہاسٹل جا کر اپنی نئی روم میٹ سے سابقہ بھولی بھالی خوبصورت لڑکی کی اتنی بدخیلیاں اور غیبتیں کیں. کہ وہ معصومہ محض غیبت نہ سننے کی غرض سے ہاسٹل چھوڑ بیٹھی. یاد رہے وہ میں نہیں۔موسمی حالات کے پیش نظر فیصل آباد میں سائنسدانوں نے بارش کی پیش گوئی کر رکھی تھی. ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل تھیں۔موسم خوشگوار ہو چکا تھا.
ہاسٹل کے ٹیرس سے البرکت ولاس کی
بلند و بالا دیوار نظر آ رہی تھی جس کے نیچے دراصل اینٹری گیٹ ہے اور اس پار کالونی. جس کے پارک میں زینب ہاسٹل کی ایک چھچھوری نومولود خود ساختہ فوٹوگرافر زبردستی. آگے پیچھے سے لڑکیوں کو اکٹھا کر کے لے جاتی تھی. آمنہ ہاسٹل کا ٹیرس دراصل اسلام آباد کا مونو مینٹ ہے. یہاں سے ایس۔ٹی۔سی بلاک کا پچھواڑا.
یونیورسٹی کے مین گیٹ کے سامنے والا کار پارکنگ ایریا,البرکت ولاس. (البرکت ولاس کے ہاسٹلز اور کبوتروں کے علاوہ سب کچھ دکھتا ہے) خدیجہ ہاسٹل,ڈروگیریا مال. یونیورسٹی کے سامنے کالونیاں جو رات کے اندھیرے میں جگ مگ روشنیوں میں تابناک ہوتی ہیں.
گلی کے اس پار دو بڑے بڑے تالاب
جو کہ مچھلی منڈی کی پہچان ہیں (یعنی ان تالابوں میں مچھلیاں پالی جاتی ہیں)اونچے اونچے اکا دکا درخت (وہ درخت جن کو رات کی تاریکی میں دیکھ کر اسلام آباد ائیرپورٹ چوک کا گمان گزرتا ہے)
میس کمیونیکیشن ڈیپارٹمینٹ کا چھوٹا سا اسٹوڈیو,چلتی پھرتی بھاگتی دوڑتی گاڑیاں. سائنس بلاک اور یونیورسٹی میں آنے جانے والی. ہر مخلوق (یعنی بلیاں کتے بکریاں چڑیاں لالیاں چمچالے طوطے مینا )وغیرہ سب کچھ نظر آتا ہے.
اسی لیے میں نے آمنہ ہاسٹل کو رفاہ کا مونومینٹ قرار دے دیا ہے. شعبہ اردو کے سامنے ہر روز ایک کمزور سا گارڈ بھاری بھرکم رائفل اٹھائے گھومتا رہتا ہے. اس پار کچھ دکانیں اور مارٹ زیر تعمیر ہیں. جس میں کھشتری صفت آدمی کو طلبہ و طالبات کو لوٹنے کی اجازت دے دی جائے گی.
تا کہ سلسلۂ روزگار میں خلل نہ آنے پائے۔
ہاسٹل کا ٹیرس گرمیوں میں رات گئے لڑکیوں کے لیے اور بھی پرکشش ہو جائے گا. ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا,کانوں میں ہینڈ فری. فل ساؤنڈ اور استاد غلام علی کی پرلطف و خوش الحان آواز “اتنا ٹوٹا ہوں کہ چھونے سے بکھر جاؤں گا”اور “ہم تیرے شہر میں آئے ہیں. اک مسافر کی طرح” تب ایک منظر تخلیق ہوتا ہے. جو انسان کو کسی دل فریب دنیا میں اڑا لے جاتا ہے. اور تادیر انسان ہر دکھ غم سے آزاد ہو جاتا ہے۔
”ہاسٹل کا ٹیرس“ ایک تبصرہ