کراچی میں چھالیہ کی اسمگلنگ تھم نہیں سکی روزآنہ کی بنیاد پر کراچی. میں بلوچستان کے راستے سینکڑوں من چھالیہ اسمگل کی جا رہی ہے. جو کہ افغانستان سے زمینی راستوں اور ایران سے سمندری راستوں کے زریعے پہلے بلوچستان.
اور پھر کراچی سعید آباد کے علاقے یوسف گوٹھ ٹرمینل پر
لائی جاتی ہے ، جہاں چھالیہ کراچی میں چھالیہ اسمگلنگ کا نیٹ ورک 8افراد آپریٹ کر رہے ہیں
یہ بھی پڑھیں؛ کراچی میں ماہانہ جرائم کی شرح۔
، سب سے زیادہ چھالیہ بمبئی چھالیہ والا منگواتا ہے. جس میں سے زیادہ تر چھالیہ بھارتی ساختہ اسمگل شدہ ہوتی ہے. کراچی میں چھالیہ یوسف گوٹھ بس ٹرمنل اور پھر وہاں سے بلدیہ. اور لیاری سمیت مختلف علاقوں میں بنے گوداموں میں ڈمپ کی جاتی ہے. اس معاملے میں پولیس سمیت کسٹم کے بعض افسران و اہلکار بھی ملوث ہیں.
جو ان اسمگلروں کی سرپرستی کر رہے ہیں
رشوت نا دینے والے افراد کی چھالیہ ضبط کی جاتی ہے. اور جن کی جانب سے رقم بروقت مل جائے. ان کی چھالیہ کو کوئی نگاہ اٹھا کر بھی نہی دیکھتا ہے. چھالیہ کی اسمگلنگ مسلسل جاری رہنے کی ہی وجہ سے کراچی میں گٹکےاور. ماوے کی فیکٹریاں دھڑلے سے چل رہی ہیں.
جن میں سے زیادہ تر نیو کراچی
سرجانی ٹاﺅن ، لیاری ، بلدیہ اور لانڈھی میں قائم ہیں. اس وقت جنتی بھی اسمگل چھالیہ کے خلاف کارروائیاں پولیس کی جانب سے کی گئی ہیں وہ سب نمائشی ہیں. اور پکڑی جانے والے چھالیہ سے زیادہ چھالیہ محفوظ مقامات پر ڈمپ ہیں.
چھالیہ کوچوں اور چھوٹی گاڑیوں میں بھر کر کراچی لائی جاتی ہے
جو کہ انڈین چھالیہ کہلاتی ہے ، کراچی میں دیگر غیر قانونی کاموں کے ساتھ ساتھ. گٹکے ماوے کے کاروبار پر بھی پولیس کی جانب سے روک نہیں لگائی جا سکی ہے. اور پورے کراچی میں دھڑلے سے گٹکے ماوے کا کام جاری ہے. جس کے عوض پولیس لاکھوں روپے ماہانہ رشوت وصول کر رہی ہے. یہ کاروبار اس لئے بھی اپنے پورے آب و تاب سے کام کر رہا ہے.
کیونکہ اس کاروبار سے جڑے افراد کو
مضر صحت گٹکا اور ماوا بنانے کے لئے کثیر تعداد میں اسمگل شدہ چھالیہ کی سپلائی مل رہی ہے. جو کہ بلوچستان سے کراچی لائی جاتی ہے. زرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت یومیہ سینکڑوں من چھالیہ بلوچستان کے علاقوں کوئٹہ ، جیوانی ، خصدار ، اوماڑہ ، پسنی ، اور گوادر سے حب لائی جا رہی ہے.
جہاں ان چھالیہ کے بوروں کو رکھنے کے لئے بڑے بڑے گودام بنائے گئے ہیں. جہاں سے مطلوبہ مقدار کی مانگ دیکھے ہوئے یہ چھالیہ کراچی اسمگل کی جاتی ہے. بلوچستان سے چھالیہ افغانستان سے زمینی راستوں کے زریعے اور ایران سے سمندری راستوں کے زریعے پاکستان لائی جاتی ہے. اور ایک کشتی سے دوسری کشتی میں یہ چھالیہ منتقل کرکے کئی ماہی گیر پاکستان کی ساحلی پٹی پر پہنچا دیتے ہیں.
جہاں سے چھالیہ مافیا کے ہینڈلر یہ چھالیہ
وصول کرکے پہلے محفوظ مقام پر پہنچاتے ہیں اس کے بعد بلوچستان پولیس سمیت دیگر اداروں کو رشوت ادا کرکے. چھالیہ کراچی اور بلوچستان کی سرحد پر واقع شہر حب منتقل کی جاتی ہے. جس کے لئے مسافر بسوں سمیت مال بردار گاڑیوں اور دیگر چھوٹی گاڑیوں کا سہارا لیا جاتا ہے. زرائع کا کہنا ہے کہ جن گاڑیوں کے زریعے چھالیہ کی اسمگلنگ کی جاتی ہے. اس کے بارے میں بلوچستان پولیس اور کسٹم کے اہلکاروں کو پہلے سے علم ہوتا ہے.
اور ان کے پاس اس گاڑی کا مکمل معلومات ہوتی ہے. مگر رقم پیشگی مل جانے کی وجہ سے اس گاڑیوں کو کسی بھی چیک پوسٹ پر روکا نہی جاتا ہے. اور گاڑی با آسانی چھالیہ لے کر اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتی ہے.
جس کے بعد کراچی پولیس اور کراچی میں
تعینات کسٹم کے عملے کو رشوت دے کر وہ چھالیہ حب سے کراچی کے یوسف گوٹھ بس ٹرمنل منتقل کی جاتی ہے. جہاں سے شہر بھر میں بنے گوداموں میں انہیں منتقل کیا جاتا ہے ، زرائع کا کہنا ہے. کہ ضلع کیماڑی میں چھالیہ کا ریکٹ پولیس سرپرستی میں ہی چل رہا ہے اور چھالیہ کی اسمگلنگ سے آنے والے رقم پولیس کے اعلی افسران تک جاتی ہے. جس کی وجہ سے ان اسمگلروں کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہی ہوتی ہے. جبکہ اگر کچھ مقدار میں چھالیہ پکڑ بھی لی جائے تو ملزمان پولیس کے ہاتھ نہیں لگتے ہیں یا یہ کہا جائے. کہ پولیس انہیں پکڑتی ہی نہیں ہے اور ان ملزمان کو نامعلوم ظاہر کرکے مفرور کر دیا جاتا ہے. چھالیہ کے جو بڑے گودام اس وقت کراچی میں موجود ہیں.
وہ بلدیہ کے علاقے میں ، مچھر کالونی کے علاقے میں ، شیر شاہ کے علاقے میں. لیاری کے علاقے میں اور اورنگی ٹاﺅن کے علاقوں میں بنائے گئے ہیں. جہاں اسمگل ہو کر آنے والی چھالیہ ڈمپ کی جاتی ہے.
جبککہ جو چھالیہ پاکستان اسمگل کی جا رہی ہے وہ بھارتی چھالیہ کہلاتی ہے
جو کہ نہایت مضر صحت ہے اور جو چھالیہ بھارت ناقص اور خراب ہونے کی وجہ سے دیگر ملکوں کو برآمد نہی کر پاتا ہے. وہ ایران بھیجی جاتی ہے جہاں سے اسے پاکستان بھیج دیا جاتا ہے ، یہ چھالیہ کیڑا لگی ہوئی. اور کیمیکل میں بھیگی ہوتی ہے. جو کہ انسانی صحت کے لئے نہایت ہی نقصان دہ ہے. اسپیشل برانچ زرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت کراچی میں 8افراد چھالیہ اسمگلنگ کا نیٹ ورک چلا رہے ہیں. جن میں نعمان نورانی ، عمران نورانی ، جاوید ڈان ، جاوید ہینڈ فری ، عصمت اللہ ، صبید پٹھان ، سہیل بمبیا ،اور جاوید تارا شامل ہیں.
سب سے زیادہ چھالیہ بمبئی چھالیہ بنانے والا منگواتا ہے. جس کی زیادہ تر چھالیہ اسمگل شدہ ہوتی ہے. اور اس کام میں اس کی سرپرستی کسٹم کے اہلکار اور پولیس کے اعلی افسران کرتے ہیں. زرائع کا کہنا ہے کہ چھالیہ ریکٹ کے خلاف ایک برا آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے.
جسے کسٹم انٹیلیجنس کے افسران لیڈ کرینگے
اور اس میں وفاقی پولیس کا خصوصی سیل بھی شامل ہوگا. ان افراد کے خلاف معلومات جمع کر لی گئی ہے. اور انہیں کون سے افراد چھالیہ بیرون ممالک سے بھیجوا رہے ہیں یہ معلومات بھی اپنے آخری مراحل میں ہیں.
معلومات اور شواہد جمع ہوجانے پر ان تمام افراد کے خلاف ایک کریک ڈاﺅن کا آغاز کر دیا جائے گا. زرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں ایس ایس پی فدا حسین جانوری کی جانب سے ہر تین ماہ بعد کچھ نمائشی کارروائیاں کی
جاتی ہیں. جس میں چھالیہ پکڑنے کے دعوے
کئے جاتے ہیں. جبکہ جو چھالیہ پولیس کی جانب سے پکڑی جاتی ہے. وہ کیڑا لگی ہوئی ہوتی ہے اور قابل استعمال نہی ہوتی ہے جسے صرف نمائشی کارروائی کے لئے ہی استعمال کیا جاتا ہے. زرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت چھالیہ اسمگلروں سے بھتہ وصولی کی زمہ داری پولیس کے خصوصی بیٹر عباس اور شوکت کی ہے جو کہ سعید آباد تھانے میں تعینات ہیں.
زرائع کے مطابق مزکورہ دونوں بیٹر یوسف گوٹھ ٹرمینل سے بھی بھاری بھتہ وصول کرتے ہیں. جو کہ وہاں موجود اسمگلروں حاجی داد محمد ، برات خان ، صحبت خان ، حاجی ستار ، جلالی خان سے ہفتہ 25لاکھ روپے رشوت وصول کرتے ہیں.
جو کہ آگے افسران بالا تک پہنچائی جاتی ہے
زرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں چھالیہ اسمگلنگ میں جو گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں. ان میں ہائی جیٹ ، ہائی روف ، رکشہ ، مزدہ 3500شامل ہیں ، جبکہ اسمگل چھالیہ کی وجہ سے کراچی میں جن جن علاقوں میں پولیس کی سرپرستی میں گٹکا ماوے کا کاروبار ہو رہا ہے. ان میں نیو کراچی کا علاقہ ، سرجانی کا علاقہ ، بلدیہ کا علاقہ ، لیاری کا علاقہ.
ملیر کا علاقہ شامل ہیں جہاں گٹکا
اور ماوہ بنانے کے لئے بڑی بڑی فیکٹریاں قائم کی گئی ہیں ، جنہیں علاقہ پولیس کی مکمل سرپرستی حاصل ہے. اور ان فیکٹریوں سے گٹکا اور ماوہ تیار ہوکر پورے کراچی میں فروخت کے لئے سپلائی کیا جاتا ہے. جولوگ چھالیہ اسمگلنگ کے کام میں ملوث ہیں.
وہ اس کی آڑ میں بھارتی ساختہ گٹکا اور کھتا بھی اسمگل کر رہے ہیں. جس میں جے ایم ، ون ٹو ون ، اے ٹو زیڈ، پان پراگ نامی مضر صحت بھارتی ساختہ گٹکے شامل ہیں. اور یہ ممنوعہ اشیاء بھی پورے کراچی میں قائم پان کے کیبنوں پر با آسانی فروخت کے لئے موجود ہے ، زرائع کا کہنا ہے.
کہ جب تک کسٹم کے اندر موجود
کالی بھیڑوں کو لگان نہی ڈالی جاتی اور اس محکمے کے اہلکاروں کی اسکروٹنی نہی کی جاتی ہے تب تک کراچی میں چھالیہ کی اسمگلنگ کا سلسلہ اس ہی طرح سے پولیس سرپرستی اور کسٹم افسران کی سرپرستی میں جاری رہے گا
۔