اس شہر کی کہانی بھی شـہر عـجوبہ کـی داسـتان کے داستان کی طرح ہے۔
جیب میں پیسے ہوتے ہوئے بھی اپنی خواہشات کو مار کر اپنے لئے کوئی چیز نا خریدنے والے شخص کو باپ کہتے ہیں. جو اپنی اُولاد کے لئے بہتر سے بہترین چیز تو پسند کر لیتا ہے. مگر خود مہنگی چیز خریدنے کی ہمت نہیں کرتا. ایک باپ ہی ہوتا ہے جو بنا کسی حسد کے اپنی اولاد کو خود سے ذیادہ ترقی کرتے دیکھ کر خوشی محسوس کرتا ہے.
بالکل اِسی طرح خِطہ زمین میں ایک ایسا
شہر بھی وجود رکھتا ہے. جسے نا صرف دُنیا کے بڑے شہروں میں شُمار کیا جاتا ہے. جہاں سے پُورے ملک کی معیشت کا پہیہ چلتا ہے. جہاں مُلک کے طول عرض سے بھانت بھانت رنگ و نسل کے لوگ عارضی یا مستقل رہائش رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں. جس شہر نے تعلیم، فنون لطیفہ ، ادب ہنر اور اداکاری میں ایسے قد آور بیٹے جنم دیئے جن کا سّکہ نا صرف ملک کے طول عرض میں چلتا ہے. بلکہ دُنیا کے کئی ممالک میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں.
جس شہر میں علاج و معالجہ کی غرض
سے دُور دراز شہروں سے لوگ آتے ہیں. جس شہر میں امیر سے امیر ترین اور غریب سے غریب ترین شخص بھی ملے گا. مگر یہاں کوئی بھی شخص بھوکا جاگ تو سکتا ہے مگر بُھوکا سو نہیں سکتا. اِس شہر پر حاکمیت اور اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی سیاسی جماعتیں دعویدار رہتی ہیں مگر یہاں کے مقامی باسی اپنے ہی شہر میں جہاں نا تو اچھی سرکاری ملازمت کا خواب دیکھ سکتے ہیں.
نا ہی سرکاری ٹرانسپورٹ مہیا کی جاسکتی ہے
۔ نا ہی پینے کے صاف پانی کا حصُول ممکن ہے. جہاں نلکے میں پانی آنے کے بجائے ٹینکرز مافیاز کے رحم کرم پر برس ہا برس سے زندگی بسر کر رہے ہیں. جہاں لوڈ شیڈنگ کے
نام پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ بندش کر دی جاتی ہے۔ جہاں گیس اس قدر نایاب ہے کہ گھنٹوں لائن پر لگ کے قدرتی گیس کا حصول قسمت سے ممکن ہے. جہاں چوری ڈکیتی کا یہ عالم ہے کہ قانون نافذ کرنے. والوں سے ذیادہ شرپسند عناصر کا راج قائم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اٹھارا سالہ دامنی چوتھی منزل سے کود کرگئی۔
جہاں پوشت کی کاشت نا ہونے کے باوجود
گلی محلہ میں منشیات ٹافیوں کی طرح فروخت ہو رہی ہوتی ہے۔ جہاں کسی قسم کی اسحلہ فیکٹری نہیں مگر پھر بھی مسلح افراد درجنوں کی تعداد میں ڈکیتیاں کرتے ہیں۔
جہاں لوٹ مار کے ساتھ ساتھ آبروریزی کے واقعات
اور سرِ راہ قوم کی ماں بہن ۔ بیٹیوں چھینا جھپٹی کی جاتی ہے
جہاں کھانے پینے کی اشیاء حتیٰ کے جان
بچانے والی ادویات میں مِلاوٹ کے ساتھ ساتھ قریبی کسی ملک کا بارڈر نا ہونے. کے باوجود اسمگل شدہ سامان دستیاب ہے جہاں کے مقامی رِزق حلال کی خاطر اور اپنے اہلخانہ کی کفالت کے لئے کسی بھی قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں سے اجتناب کرتے ہیں. مگر جنات کا مخصوص ٹولہ اس شہر اور یہاں کے باسیوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کرنے کے لئے یہاں سے ہر ماہ ہزاروں کی تعداد میں موٹر سائیکلیں. گاڑیاں چھین یا چوری کر لیتے ہیں.
جہاں لاقانونیت کا یہ عالم ہے کہ چند ہزار روپے
کے فون کے بدلے کسی کے گھر کا روشن چراغ گل کر دیا جاتا ہے۔ جہاں ماورائے عدالت قتل کی داستانیں زدعام ہیں جہاں کئی خاندان. برسوں سے اپنے جگر کے ٹکڑے کی تلاش میں سرگراں ہیں. جہاں قانون کی حکمرانی سے زیادہ ڈکیت راج قائم ہے. جہاں لسانیت و فرقہ واریت کے نام پر اکسانا اور مذہبی اور معاشرتی کھیل سمجھ رکھا. مگر پھر بھی ایک باپ کی طرح ملک و قوم کی ترقی و ترویج میں ایک مثالی نام رکھتا ہے. ایسا شہر شائد روئے زمیں پر کوئی دوسرا نہیں ہوگا۔
”شہر عجوبہ کی داستان“ ایک تبصرہ